Mittwoch, 13. Juli 2011

میری محبتیں پر چند تاثرات

میری محبتیں پر چند تاثرات

میری کتاب’’میری محبتیں ‘‘پر بہت سارے ادبی دوستوں نے مضامین اور تبصرے لکھے۔بعض نے مجھے خط لکھ کر اپنے تاثرات سے آگا ہ کیا۔ان سارے تاثرات کا ایک نہایت مختصر سا انتخاب یہاں پیش کر رہا ہوں۔امید ہے میرے محبت کرنے وال
ے دوستوں کو ان تاثرات کو پڑھ کر بھی خوشی ہو گی۔حیدر قریشی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اشفاق احمد میری محبتیں پر رائے دیتے ہوئے کہتے ہیں۔
’’ولایتی زبانوں میں ایسے اسکیچ اپنے اپنے انداز میں بہت ملتے ہیں لیکن اردو میں’’میری محبتیں ‘‘اپنی نوعیت کی واحد کتاب ہے‘‘

جوگندر پال لکھتے ہیں۔

حیدر قریشی کی اس کتاب کے بیس خاکے دو حصوں میں بٹے ہوئے ہیں۔پہلے دس کے لئے تو وہ اپنے گھر کی چار دیواری میں ہی تاکا کیا ہے اور باقی دس کے لئے گھر سے باہر نکل آیا ہے۔اوّل خویش،بعد درویش۔۔۔۔۔۔۔۔۔گھر والوں کے تو کلوز اپ تیار ہو گئے ہیں اور درویشوں کے پروفائل، اور ہر دو پر سے نظر ہٹانے کو جی نہیں چاہتا۔ آج کے مشینی دور کی مصروفیت میں سچ مچ کی ملاقاتوں کی گنجائش خطرناک حد تک سکڑتی جا رہی ہے۔ان حالات میں یہ بھی غنیمت ہے کہ اوروں کے خاکے پڑھ پڑھ کر ہی ہماری ان سے ملنے کی چاہ پوری ہوتی رہے۔ یوں نہیں تو یونہی سہی،جیسے بھی انسان اپنے آپ کو ’انسانیا‘ لے۔ مجھے یقین ہے کہ حیدر قریشی کی محبتوں کی یہ کتاب بہت دلچسپی سے پڑھی جائے گی!

ڈاکٹر گیان چند جین کی رائے ہے۔’’میری محبتیں‘‘کے ابتدائی پانچ چھ مضامین میں نے پوری طرح پڑھے ‘بقیہ کو سرسری دیکھا۔دوسرے حصہ میں پہلے چار خاکے نیز آخری مضمون پرانے ادبی دوست پڑھا۔خوب لکھتے ہیں،آپ نے اپنے بزرگوں کے محیرالعقول واقعات لکھے ہیں‘ان سے میں متاثر ہوا۔ تمام مضامین بہت دلچسپ اور دلکش ہیں،


منشا یاد اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں۔

حیدر قریشی نے سچ کادامن کہیں نہیں چھوڑا ۔یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریر میں متاثر کرنے کی قوت ہے ۔ان کے خوبصورت اندازِِ تحریر نے اسے اوربھی دلنشین بنادیاہے۔۔۔۔ میری محبتیں ‘‘خاکوں کا ایک بہت ہی خوبصورت اور خیال انگیز مجموعہ اورخاکہ نگاری کے فن میں ایک اہم اضافہ ہے۔

مصر میں اردو کے اسکالرہانی السعید لکھتے ہیں۔

’’میری محبتیں‘‘میری نظر میں اردو خاکہ نگاری میں ہی نہیں مجموعی اردوادب کی بھی ایک بڑی اہم کتاب ہے۔

ڈاکٹر رضیہ حامد لکھتی ہیں۔

’’میری محبتیں ‘‘کئی مرتبہ پڑھ چکی ہوں اور یہی حال رہا تو میں اس کی حافظ ضرور ہو جاؤں گی۔ آپ کی تحریر میں بلا کی سادگی اور قاری کو باندھ رکھنے کی طاقت ہے۔درد کی پوشیدہ لہریں دل و دماغ میں اندر تک اتر جاتی ہیں اور قاری اپنے آپ کو قاری نہ سمجھ کر حیدر قریشی بن جاتا ہے۔یہ آپ کی تحریر کا کمال ہے۔‘‘

قاضی اعجاز محور کی رائے ہے۔

یہ خاکے جہاں حیدرقریشی کی محبتوں کے امین ہیں وہاں ہمارے معاشرے کے ایک عام گھرانے کے طرزِتمدن کا بھرپور عکس بھی ہیں۔ "میری محبتیں"صرف محبتوں کی داستان ہی نہیں بلکہ اس میں خود مصنف سمیت ہر عمر کے افراد کا رزارِحیات میں سرگرمِ عمل دکھائی دیتے ہیں اور اس طرح یہ کتاب حیاتِ انسانی کے لیے جدو جہد کا ایک پیغام بن جاتی ہے۔

خاور اعجاز لکھتے ہیں۔

حیدر قریشی کی یہ تحریریں محبت کی چاشنی میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ کہیں کہیں ہلکا سا طنز یا مزاح کا پہلو لئے ہوئے کوئی چبھتی ہوئی بات بھی محبت ہی کا ایک اظہار ہے۔

انگلینڈ کے محمود ہاشمی رقم طراز ہیں۔

آپ کی بھیجی ہوئی’’میری محبتیں‘‘مجھے مل گئی ہے۔یقیناََ یہ کتاب کا کمال ہے کہ اسے پڑھنا شروع کیا تو پڑھتا ہی گیا۔او ر اس وقت تک کسی اور طرف توجہ دینے کا ہوش ہی نہ رہا جب تک کہ وہ ختم نہ ہوگئی۔آپ کی’’محبتیں‘‘پڑھی تو آپ کے قلم اور مشاہدہ کا قائل ہونا پڑا۔

رؤف خیرکہتے ہیں۔"میری محبتیں" اتنے دلچسپ اسلوب میں لکھی گئی ہے کہ کتاب ہاتھ سے رکھنے کو جی نہیں کرتا۔


سید وقار معین کی رائے ہے۔ " میری محبتیں" تازہ ہوا کے جھونکے کا احساس دلاتی ہے۔ یقین ہے کہ یہ ہمیشہ ذوق و شوق سے پڑھی جاتی رہے گی اور اردو میں خاکہ نگاری کی ایک دلکش اور منفرد جہت کے طور پر تاریخ ادب میں اس کا حوالہ ناگزیر ہو گا-


فاروق شکیل اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

حیدر قریشی کی تحریر میں مقناطیسی کیفیت ہے جو قارئین کو پیار کی ڈور سے باندھے ہوئے ان بستیوں میں لے جاتی ہے جہاں کی مٹی میں مہرو وفا کی مہک ہے اور وہ کردار ہیں جو ابا جی،امی جی،دادا جی،نانا جی،تایا جی،ماموں ناصر،آپی،مبارکہ،چھوٹے بھائی طاہراور بچوں کی صورتوں میں نظر آتے ہیں۔ان تمام سے مل کر اپنائیت کا ایسا احساس جاگتا ہے جیسے وہ سب ہمارے اپنے ہی ہیں۔

عظیم انصاری لکھتے ہیں۔

اندازِ تحریر میں اتنی برجستگی ہے کہ کہیں بھی احساس نہیں ہوتا کہ آپ اس گھر کے فرد سے پہلی بار مل رہے ہیں۔اس حصّے میں حیدر صاحب کی بے تکلفی،قرابت داری اور جذباتی والہانہ لگاؤ کا عکس اس انداز میں نمایاں ہیں کہ بعض اوقات قاری کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔خاکہ نگاری کا اس سے عمدہ نمونہ اور کیا ہو سکتا ہے۔

سلطانہ مہر لکھتی ہیں۔

حیدر قریشی کی ادبی حیثیت کے کئی پہلو ہیں۔اتنی رنگا رنگی کم ہی شخصیتوں میں پائی جاتی ہے۔ ان کی شاعری، تنقید‘افسانے اور خاکے پڑھ کرمیں اس نتیجے پر پہونچی کہ خاکہ نگاری میں انہیں کمال حاصل ہے۔ اس دلنشیں اندازمیں انہوں نے شخصیات کے واقعات کے‘ماحول کے اور قصّوں کے قلمی نقشے تراشے ہیں کہ قاری ان کے سحر میں گم ہوجاتا ہے۔

ترنم ریاض کی بے ساختہ رائے یوں ہے۔

’میری محبتیں ‘ تو کمال کی کتاب ہے سیدھی،سنجید ہ باتیں لکھتے ہوئے حیدر قریشی جو ہلکا سا مزاحیہ رنگ دے کر جملہ مکمل کرتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے قہوہ پیتے پیتے الائچی کا کوئی دانہ دانت تلے آکر ذہن و دہن کو خوشبو سے معطر کر جائے۔

محمد اکرم(امریکہ )سے لکھتے ہیں۔چند ماہ قبل جب ‘‘عمر لاحاصل کا حاصل‘‘ پڑھنے کا موقع ملا تو لطیف تر حسیات رکھنے والے اس منکسر المزاج اور رقیق القلب شخص سے ملاقات ہوئی تو لطف دو آتشہ ہو گیا ۔آج مدرز ڈے کے حوالے سے حیدر قریشی کی تحریر پڑھ کر مجھے اپنی ماں یاد آگئی اور ایک ایک لفظ کے ساتھ جہاں حیدر قریشی کی امی جی کو تصور (ویژولائز) کر تارہا وہیں اپنی امی جی کا چہرہ آنکھوں کے سامنے لاکر اشکبار ہو تا رہا ۔ ماؤں کے سانجھا ہونے کا ایک یہ مفہوم بھی تو ہے۔


جاوید خان(جرمنی)سے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں۔حیدر صاحب!جو بے ساختگی اور سچائی میں نے آپ کی تحریر میں پائی ہے بہت کم لوگوں کے ہاں ملتی ہے۔مجھے ایک خاص سطح سے نیچے کی تحریریں بالکل متاثر نہیں کرتیں۔میں ادب کا ایک حقیر طالب علم ہوں لیکن سچائی کی تلاش میں رہتا ہوں۔بناوٹ یا بڑے نام میرے نزدیک کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔نہ ہی مجھے کبھی کسی کی دولت مرعوب کرتی ہے۔یہ سب میرے لئے سطحی اور چھوٹی باتیں ہیں۔خدا آپ کا زورِ قلم اور زیادہ کرے۔جو راہ آپ نے اپنے لئے منتخب کی ہے وہ ’’زگ زیگ‘‘سہی۔مگر جاتی بہر طور منزل کی طرف ہے۔اس لئے کہ جذبوں کی صداقت اپنا رستہ خود متعین کرتی ہے۔لکیروں کے ڈسے مجھ سے لوگوں کے لئے آپ بہر حال خضر راہ ہیں۔


ناصر نظامی(ہالینڈ) سے ان الفاظ میں محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ آپ کی کتاب ’’میری محبتیں‘‘قابلِ تعریف ہے۔آپ نہایت عمدگی سے کرداروں کے حالات و واقعات کی اور جذبات و احساسات کی تصویر کشی کرتے ہیں۔آپ کی تحریر میں کمال کا رچاؤ‘ چٹکیاں‘ دردمندی‘ بلند حوصلگی اورگہری محبت کا اظہار پایا جاتا ہے۔آپ کے اندر محبت کا اتھاہ گہرا سمندر موجزن ہے جو ابھی تک اپنے جیسے کسی اور عمیق سمندر کی تلاش میں سرگرداں ہے۔آپ کی تحریر میں میں نے محبت کی طلسماتی اور ماورائی فضاؤں جیسی کیفیت محسوس کی ہے۔کچھ ایسا جو روحانی دیوتاؤں کا ورثہ ہوتا ہے۔جو روحانیت کے عارفین کا نصیب ہوتا ہے۔مجھے آپ کے ہاں ایک روحانی ولائت کی جھلک دکھائی دی ہے۔


ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی لکھتے ہیں۔ ابھی’’ میری محبتیں ‘‘پڑھ رہا ہوں۔بعض خاکے پڑھ کر آپ کی زندگی کے اتار چڑھاؤ سے بے حد متاثر ہوا ہوں۔مجھے لگا کہ ذہنی سفر میں میرا آپ کا ساتھ ہو گیا ہے۔لکھنے بیٹھوں گا تب میں اپنے جذبات کو کس طرح سمیٹ پاؤں گا‘کہنا مشکل ہے ۔ابھی صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ آپ کی یہ کتاب شاہکار کا درجہ رکھتی ہے۔بہت بہت مبارک باد

اسلم حنیف رائے دیتے ہیں۔نرم اسلوب سے جھانکتی ہوئی تصویریں جاذب نظر ہی نہیں قابلِ تقلید بھی بن گئی ہیں۔خاکہ نگاری نہ ہی کارگہ شیشہ گری ہے اور نہ ہی فن بت تراشی یا مصوری اور فوٹو گرافی‘بلکہ یہ تو ایک طرح کی کلوننگ ہے۔آپ نے جن ہستیوں کی کلوننگ کی ہے ان میں ہر ہستی اپنے مکمل وجود کے ساتھ اُبھر آئی ہے۔یہی آپ کے اسلوب اور فن کی بڑی کامیابی ہے۔

سعید انجم(ناروے)سے رقم طراز ہیں۔خاکوں پر مشتمل آپ کی کتاب ’’میری محبتیں‘‘مجھے ملی۔اس عنائت کے لئے آپ کا بہت بہت شکریہ!’’روشنی کی بشارت‘‘کے افسانے پڑھنے کے بعد آپ کے ساتھ جو تعارف ہوا تھا‘اس کتاب کے مطالعہ کے بعد اس نے ایک اور منزل طے کر لی ہے۔آپ سے شناسائی کی سمت’’میری محبتیں‘‘ایک دلگداز پھاٹک کی مانند ہے۔

مقصود الٰہی شیخ(انگلینڈ) سے لکھتے ہیں۔آپ کی کتاب ’’میری محبتیں‘‘دیکھنی شروع کی ہے۔لگتا ہے آپ کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے۔کہہ سکتے ہیں اور کہنے کا یارا بھی ہے۔میرا دل چاہا کہ آپ کو بتا ؤں کہ جو پڑھا ہے‘ پسند آیا ۔آپ نے بڑی مشکل باتیں بڑی آسانی سے لکھ دی ہیں‘آپ کو اس کی داد ملے گی۔یوں تو ابا جی ‘امی جی اور دادا جی پر مضامین’’ودھیا‘‘ہیں مگر ان میں احترام کا عنصر جھلکتا ہے۔’’ڈاچی والیا موڑ مہارو ے‘‘میں آپ کا شریر ریمارک ہونٹوں پر تبسم لاتا ہے‘پَر جس بے تکلفی سے آپ نے اپنے نانا جی پر لکھا ہے وہ سب سے زیادہ نمبر لے گیا۔بڑی بے ساختگی ہے‘روانی ہے اور گندھی ہوئی خوشگواریت لا جواب ہے۔۔۔۔۔۔مجھے جوگندر پال جی سے مکمل اتفاق ہے کہ یہ کتاب بہت دلچسپی سے پڑھی جائے گی۔۔۔۔میں کہنا چاہ رہا ہوں شاعری آپ کا شوق ہے۔ٹھیک ہے ورنہ آپ کی نثر میں شاعروں سے اچھی اور زیادہ شعریت ہے۔


نیاز احمد صوفی لکھتے ہیں۔آپ کے خا کے ’’میری محبتیں‘‘ماشاء اﷲ زبردست ہیں۔یہ نہ صرف آپ کی محبت کی غمازی کرتے ہیں بلکہ اس ثقافتی پس منظر اور روایات کو اجاگر کرتے ہیں جن میں آپ کی تربیت اور ذہنی نشوونما ہوئی ہے۔آپ کے دیکھنے پرکھنے کے انداز کا اچھوتا پن اور یوں ایک مخصوص زاویے سے زندگی کرنے کی دعوت‘ان خاکوں کا نمایاں پہلو ہیں۔

بیگم وسیم راشد لکھتی ہیں۔حیدر کے یہ خاکے اس لیے بھی اہم ہیں کہ ان میں ہمیں اپنی زندگی کا عکس نظرآجاتاہے ۔یہ احساس رہتاہے کہ یہ سارے اسی کے ہی نہیں ہمارے بھی قرابت دار اور جان پہچان والے ہیں ۔

2 Kommentare:

  1. حیدر قریشی صاحب کی کتاب ’’میری محبتیں ‘‘پر تاثرات پڑھ کر کوئی بھی انسان حیران رہ جاتا ہے۔تقریباًدنیا بھر سے صاحب علم و فن افراد نے ان کی کتاب پر اپنی رائے دی ہے جس کے لئے حیدر قریشی صاحب مبارک باد کے مستحق ہیں

    AntwortenLöschen
  2. یہ تاثرات تو دوست احباب کی محبت کا مظہر ہیں۔مجھے خوشی ہو گی کہ آپ خود یہ خاکے پڑھ کر اپنی رائے کا اظہار کریں۔آپ کی آمدکا شکریہ ادا کرتا ہوں ۔حیدر قریشی

    AntwortenLöschen