Mittwoch, 13. Juli 2011

ڈاچی والیا موڑ مُہارو ے

ڈاچی والیا موڑ مُہارو ے
داداجی

ایک اَن دیکھے کی سوچوں میں گھرا رہتا ہوں میں
اُس کی آنکھیں  اُس کا چہرہ  سوچتا  رہتا ہوں میں

۔۔۔۔میرے داداجی قیام پاکستان سے کئی برس پہلے فوت ہوگئے تھے۔ میں نے داداجی کو نہیں دیکھا مگر ان کے بارے میں اپنے دل میں ہمیشہ ایک انوکھی سی محبت محسوس کی۔ ان کے والد اور میرے پردادا حضرت میاں میر محمد گڑھی اختیارخاں کے پِیروں میں شمارہوتے تھے۔ حضرت خواجہ غلام فریدؒ کے روحانی دوست میاں درّمحمد (درّن سئیں) کے ساتھ رشتہ داری کا کچھ تعلق بھی تھا۔ پیری مریدی کا سلسلہ حضرت میاں میر محمد کو وراثت میں ملاتھااور یہی ان کی زندگی تھا۔ داداجی اپنے آباء واجداد کے پیری مریدی کے مروّجہ سلسلے سے بیزاری سی محسوس کرتے تھے۔ اباجی اس سلسلے میں داداجی کی جوانی کا ایک واقعہ سنایاکرتے تھے۔ داداجی کے ایک رشتہ کے کزن نے ایک دن داداجی سے کہا ایک کام کے سلسلے میں میرے ساتھ چلو۔ کئی کوس کا سفر کرکے دونوں ایک خستہ جھگی تک پہنچے۔ وہاں ایک مفلوک الحال شخص اپنی بیوی، بچوں اور ایک گدھی کے ساتھ موجود تھا۔ داداجی کے کزن نے اس سے اپنا تعارف کرایاکہ میں تمہارے پیرگھرانے کافرزند ہوں۔ وہ غریب بال بچوں سمیت ان کے قدموں میں بیٹھ گیااور عقیدت کاجاہلانہ اظہارکرنے لگا۔ اس پرداداجی کے کزن نے اسے کہنا شروع کیا:

’’دیکھو۔۔تمہاری اس جھگی میں میرا حصہ ہے‘‘
’’سئیں‘‘
’’تمہارے بیوی بچوں میں میرا حصہ ہے‘‘
’’سئیں‘‘
’’تمہاری گدھی میں بھی میرا حصہ ہے‘‘
’’سئیں‘‘
۔۔۔۔وہ غریب پیرسائیں کی ہربات پر’’سئیں‘‘(بجاارشاد!) کا اقرار کرتاگیا۔ آخر ان کے کزن نے کہاجاؤ نذرانہ لے کر آؤ۔اس غربت زدہ نے جھگی کے اندر سے کچھ مصری لاکر پِیرجی کی خدمت میں پیش کی اور داداجی اپنے کزن کے ساتھ لوٹ آئے۔۔ واپسی پر رستے میں داداجی نے اپنے کزن کو لعنت ملامت کی کہ اتنی سی مصری کے لئے مجھے اتنا لمبا سفر کرایا۔ جواباً کزن نے کہا: یار! مسئلہ مصری کانہیں تھا مریدپکاکرنے کا تھا سو مرید پکاہوگیاہے۔ میرا خیال ہے اس طرح کے پیروں کو مریدوں کا ظالمانہ استحصال کرتے دیکھ کر ہی داداجی پیری مریدی کے سلسلے سے بیزار ہوئے ہوں گے۔ کیونکہ پھر انہوں نے گڑھی اختیارخاں میں اپنے والد کی وراثت نہیں سنبھالی۔ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر خانپور چلے آئے اور یہاں فقیری زندگی بسر کی۔ گڑھی اختیار خاں کے پرانے کاغذات میں شاید میرے پردادا میاں میرمحمد کے نام کی زمینیں ابھی بھی موجود ہوں مگر داداجی نے نہ اپنی زمینوں کی طرف پلٹ کر دیکھا،نہ مریدوں کو قابو کرنے کاسوچا۔ آفرین ہے اباجی اور باباجی پر بھی کہ انہوں نے بھی اپنی پرانی زمینیں تلاش کرنے کی زحمت نہیں کی۔
۔۔۔۔خانپور میں داداجی نے ایک شریف گھرانے کی لڑکی ’’صاحب خاتوں‘‘ سے شادی کی۔ یہ میری دادی تھیں۔اباجی بتاتے تھے کہ وہ بمشکل چھ سال کے تھے جب ہماری دادی فوت ہوگئیں۔اباجی نے ایک لمبی سی قمیص پہنی ہوئی تھی۔ قمیص کی طوالت کے باعث نیچے کسی شلوار یاجانگیہ کی اُس زمانے میں ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ قمیص کی جیب میں ریوڑیاں اور مکھانے بھردیئے گئے تھے۔اباجی بتاتے تھے میں نے اپنی اماں کی تدفین کا سارا منظر دیکھا تھا۔زیادہ ترریوڑیاں مکھانے کھاکر دیکھتارہا۔ کبھی کبھار رونے بھی لگ جاتاکہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ دادی جان رحیم یار خاں میں فوت ہوئی تھیں۔ جب تک ہم وہاں رہے اباجی ہر محرّم کی دس تاریخ کو ہمیں ساتھ لے کر قبرستان جاتے۔ دادی جان کی قبر پر پھول پتے اور خاص طورپر کھجورکے پتوں کی چھڑیاں چڑھاتے۔ خیرات کرتے، دعاکرتے۔ خان پور چلے گئے تو پھر کبھی کبھار رحیم یار خاں دعا کے لئے چلے جاتے۔ ایک دفعہ رحیم یارخاں سے آئے تو اُداس اُداس تھے۔ خود ہی بتانے لگے میں ماں کی قبر بھول گیاہوں۔ بہت تلاش کی، نہیں ملی۔ قبرستان بہت پھیل گیاہے۔ قبرستان کے مین گیٹ پر ہی کھڑے ہوکر دعا کرآیاہوں۔ اس کے کچھ عرصہ بعد ہم نے خانپور میں موجود داداجی کی قبر پختہ کرالی تاکہ بعد میں یہ بھی گم نہ ہوجائے۔۔ داداجی نے اباجی اور باباجی کو ماں بن کر بھی پالااور باپ بن کربھی پالا۔ جب کچھ بڑے ہوگئے تو اباجی کو رحیم یار خاں میں ان کے ماموں کے سپرد کردیاور باباجی کو ان کی پھوپھی بوانور خاتوں کو سونپ دیا۔
۔۔۔۔داداجی معمولی سا بیمارہوئے اور فوت ہوگئے۔ گھر میں رونا پیٹنامچ گیا۔ سارے عزیز و اقارب جمع ہوگئے۔ داداجی کو غسل دے دیاگیاتو اٹھ کر بیٹھ گئے۔ وفات کی خبر سن کر آئے ہوئے سارے لوگ خوفزدہ ہوگئے۔ کچھ چیختے چلاتے گھرسے نکل بھاگے، ایک دو عزیز دہشت سے بے ہوش ہوگئے۔ اباجی کو ’’شادئ مرگ‘‘ کا مطلب پوری طرح سمجھ میں آگیا۔ داداجی اُٹھ کر بیٹھ گئے اور فوراً کہنے لگے دوسری گلی سے اللہ رکھا کمہارکا پتہ کراؤ۔ وہاں سے پتہ کیاگیاتو معلوم ہواکہ ابھی ابھی بیٹھے بیٹھے ہی فوت ہوگیاہے۔۔داداجی نے ایک انوکھی کہانی سنائی۔ انہوں نے بتایاکہ مجھے دو سفید کپڑوں والے کہیں لئے جارہے تھے کہ ایک مقام پر رُکناپڑا۔وہاں موجود کچھ اور سفید کپڑوں والوں نے ایک رجسٹر چیک کیا(اسے عالم بالا کا شناختی کارڈ آفس سمجھ لیں)داداجی کولے جانے والوں کو، چیکنگ کرنے والوں نے کہا :باری تو اللہ رکھا کمہارکی تھی تم لوگ اللہ رکھا قریشی کو لے آئے ہو۔ چنانچہ غلطی معلوم ہوجانے کے بعد داداجی کو پھر اس دنیا میں واپس لایاگیااور اسی وقت اللہ رکھا کمہار کی موت واقع ہوگئی۔ جہاں تک اس واقعہ کی صحت کا تعلق ہے اباجی، باباجی، بواحیات خاتوں۔۔ سب نے یہ واقعہ اپنی چشم دید گواہی پر بیان کیا۔ چاچڑاں شریف اور کوٹ شہباز کے بعض دُور کے اور بوڑھے عزیزوں نے بھی تصدیق کی کہ ہم بھاگ نکلنے والوں میں شامل تھے۔ اس قصے کااصل بھید کیاتھا؟ یہ تو شا ید کوہ نداکی دوسری سمت جاکر ہی معلوم ہوسکے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سفیدکپڑوں والے سارے فرشتے سرائیکی زبان بول رہے تھے۔ ظاہر ہے انہیں علم تھاکہ ہمارے داداجی صرف سرائیکی زبان ہی جانتے ہیں۔
۔۔۔۔داداجی کے بارے میں مشہور تھاکہ کسی سائل کو خالی ہاتھ نہ جانے دیتے تھے۔ اباجی نے بتایاتھاکہ ایک دفعہ داداجی کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ ایک سائل آگیا۔داداجی نے کچھ سوچا اور پھر اپنی قمیص اتارکر اسے دے دی۔ خداکاشکر ہے کہ اس کے فوراً بعد کوئی اور سائل نہیں آگیا کیونکہ اس وقت داداجی کے جسم پر صرف ایک چادر تھی جو انہوں نے نیچے باندھی ہوئی تھی اور یہ تو طے ہے کہ انہوں نے سائل کو بہرحال خالی ہاتھ نہیں جانے دینا تھا۔ یہ جملہ لکھتے ہوئے مجھے ایسا لگاہے جیسے داداجی عالم بالاسے ہی میری شرارت پر مسکرارہے ہیں اور اباجی سے کہہ رہے ہیں: ’’غلام سرور!ڈیکھ گھِن اپنٹے پتر دے لقا‘‘(غلام سرور!اپنے بیٹے کی شرارت دیکھ لو)۔
۔۔۔۔داداجی کو بازپالنے کا بہت شوق تھا۔ شکارکے شوقین تھے۔ باز کے ساتھ شکارکھیلتے۔ گھر پر زیادہ تر شکارکاگوشت پکتاجوعموماً تیترکاہوتاتھا۔ شکار کے لئے کمان نما غلیل بھی استعمال کرتے تھے۔ یہ غلیل ایک عرصہ تک خانپور میں ہمارے پاس محفوظ رہی۔ میں اسے کمان سمجھتاتھا۔ ۱۹۷۳ء میں خانپور میں قیامت خیز سیلاب آیاتو ہمارا گھر گرگیا۔ وہ غلیل اسی سیلاب کی نذر ہوگئی۔
۔۔۔۔داداجی کے دور میں ان کے علاقے میں زندگی محدود تھی، وژن محدود تھا، داداجی ان حدود سے کچھ آگے نکلناچاہتے تھے سو محدود زندگی کی قید سے نکل کر لامحدود کی فضاؤں میں پرواز کرنے کے لئے کبھی کبھی افیون استعمال کرلیتے تھے۔ میں داداجی کو انقلابی آدمی سمجھتاہوں کیونکہُ اس زمانے میں بنے بنائے، بندھے بندھائے مرید چھوڑ کر آزاد نکل جانا بہت بڑا انقلابی قدم تھا۔ وہ روحانیت کا ڈھونگ رچاکر سادہ لوح لوگوں کے جذبوں کا استحصال نہیں کرناچاہتے تھے۔۔ داداجی جسمانی لحاظ سے دبلے پتلے تھے مگران کا جسم کسرتی تھا۔ شکار کے شوق کے باعث ان میں پھرتیلاپن بہت تھا۔ رنگ سانولا مگر نقش تیکھے تھے۔ ہماری بہن شاہدہ کو دیکھ کر باباجی اکثرکہاکرتے تھے یہ ہمارا اباہے۔
۔۔۔۔امی جی نے داداجی کو نہیں دیکھاتھا۔ امی جی بتاتی تھیں کہ ایک دفعہ اباجی کسی بات پر امی جی سے ناراض ہوئے۔ پھر حسبِ عادت صلح بھی کرلی مگر اباجی کی ناراضگی کے باعث امی جی کے دل پر گہرا اثر تھا۔اسی حالت میں سوگئیں۔ خواب میں دیکھاکہ ہمارے داداجی آئے ہیں۔ انہوں نے امی جی کے سرپردست شفقت رکھا، پیارکیا۔ امی جی کو کچھ نقدی دی اور کہا: میں غلام سرور کو ڈانٹوں گاآئیندہ تمہیں رنج نہیں دے گا۔امی جی کی آنکھ کھلی تو بے حد حیران ہوئیں۔ابا جی کو سارا خواب سنا کر دادا جی کا حلیہ بھی بتایا۔ اباجی بھی حیران ہوئے کیونکہ امی جی کا بیان کردہ حلیہ سوفیصد درست تھا۔ اس خواب کے تھوڑاعرصہ بعد داداجی کی دی ہوئی نقدی کے نتیجہ میں ہماری بڑی بہن آپی پیداہوئی۔
۔۔۔۔داداجی کو پرانی طرزکاگایاہواایک گیت بہت پسند تھا۔شاید انہیں دنوں میں اس گیت کا پہلاریکارڈ ریلیزہواہو۔ ’’ڈاچی والیا موڑ مہاروے!‘‘۔۔ مگر صحرا کی وسعتوں میں بڑھتے چلے جانے والے مہاراں کہاں موڑتے ہیں۔ داداجی گڑھی اختیارخاں سے چند کوس کے فاصلے پرتھے مگر وہ بھی پھر خانپور سے ڈاچی کی مہارموڑ کر گڑھی کی طرف کبھی نہیں گئے۔
۔۔۔۔اباجی بتاتے تھے:داداجی آخری ایام میں معمولی سا علیل ہوئے پھر ٹھیک ہوگئے۔ ان دنوں میں اباجی انہیں رات کودیر تک دباتے رہتے اور جب تک داداجی خود نہ کہتے کہ بیٹا بس کرو، تب تک دباتے رہتے۔۔ اُس رات اتفاق سے داداجی گہری نیند سوگئے اور اباجی اپنی دُھن میں ساری رات داداجی کو دباتے رہے یہاں تک کہ فجر کی اذان ہوگئی۔ تب داداجی چونک کر بیدارہوئے اور کہنے لگے غلام سرور! تم ساری رات دباتے رہے ہو۔۔ پھر دعائیں دیتے ہوئے کہنے لگے اب بس کرو۔ اباجی وہاں سے اٹھ کر محلے کی مسجد میں نماز پڑھنے چلے گئے۔ واپس آئے تو باباجی نے کہا: غلا م سرور!ابا فوت ہوگئے ہیں۔۔ ڈاچی والے عرب اور چولستان کے صحراؤں سے بھی آگے کائنات کے وسیع تر صحرا کی طرف چلے گئے اور کتنے اطمینان وسکون کے ساتھ چلے گئے۔
۔۔۔۔بچپن میں میری خواہش ہوتی تھی کہ جلدی سے بڑاہوکر ابو بن جاؤں اور اپنے بچوں کو ڈانٹاکروں۔ اب میری خواہش ہے کہ بچوں کی شادیاں کرکے دادابن جاؤں۔ پھر دادا بن کر اپنے پوتوں میں اپنے بچپن کو اور اپنے آپ میں اپنے داداجی کو دیکھوں۔ اپنے داداجی کے بارے میں مجھے علم ہے کہ:
وہ بڑ
کب کا صحرا کے سینے میں گم ہوچکاہے
مگر آج میں جانتاہوں
وہ میری ہی تصویرتھا
میرااوتارتھا
میراچہرہ تھاوہ
میں نے خود اُس کو بھیجا تھا
اپنی طرف
اسے خود بلاتاہوں اپنی طرف!
۔۔۔۔میری دادابننے کی خواہش دراصل اپنے داداجی کو بلانے کی خواہش ہے۔
ڈاچی والیا موڑ مہاروے!
مجھے یقین ہے ڈاچی والا میری آواز پر اس بار ضرور مہاراں موڑے گا۔ کیونکہ یہ اسی کی اپنی آواز ہے۔
***

Keine Kommentare:

Kommentar veröffentlichen