Mittwoch, 13. Juli 2011

میری محبتیں پر چند تاثرات

میری محبتیں پر چند تاثرات

میری کتاب’’میری محبتیں ‘‘پر بہت سارے ادبی دوستوں نے مضامین اور تبصرے لکھے۔بعض نے مجھے خط لکھ کر اپنے تاثرات سے آگا ہ کیا۔ان سارے تاثرات کا ایک نہایت مختصر سا انتخاب یہاں پیش کر رہا ہوں۔امید ہے میرے محبت کرنے وال
ے دوستوں کو ان تاثرات کو پڑھ کر بھی خوشی ہو گی۔حیدر قریشی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اشفاق احمد میری محبتیں پر رائے دیتے ہوئے کہتے ہیں۔
’’ولایتی زبانوں میں ایسے اسکیچ اپنے اپنے انداز میں بہت ملتے ہیں لیکن اردو میں’’میری محبتیں ‘‘اپنی نوعیت کی واحد کتاب ہے‘‘

جوگندر پال لکھتے ہیں۔

حیدر قریشی کی اس کتاب کے بیس خاکے دو حصوں میں بٹے ہوئے ہیں۔پہلے دس کے لئے تو وہ اپنے گھر کی چار دیواری میں ہی تاکا کیا ہے اور باقی دس کے لئے گھر سے باہر نکل آیا ہے۔اوّل خویش،بعد درویش۔۔۔۔۔۔۔۔۔گھر والوں کے تو کلوز اپ تیار ہو گئے ہیں اور درویشوں کے پروفائل، اور ہر دو پر سے نظر ہٹانے کو جی نہیں چاہتا۔ آج کے مشینی دور کی مصروفیت میں سچ مچ کی ملاقاتوں کی گنجائش خطرناک حد تک سکڑتی جا رہی ہے۔ان حالات میں یہ بھی غنیمت ہے کہ اوروں کے خاکے پڑھ پڑھ کر ہی ہماری ان سے ملنے کی چاہ پوری ہوتی رہے۔ یوں نہیں تو یونہی سہی،جیسے بھی انسان اپنے آپ کو ’انسانیا‘ لے۔ مجھے یقین ہے کہ حیدر قریشی کی محبتوں کی یہ کتاب بہت دلچسپی سے پڑھی جائے گی!

ڈاکٹر گیان چند جین کی رائے ہے۔’’میری محبتیں‘‘کے ابتدائی پانچ چھ مضامین میں نے پوری طرح پڑھے ‘بقیہ کو سرسری دیکھا۔دوسرے حصہ میں پہلے چار خاکے نیز آخری مضمون پرانے ادبی دوست پڑھا۔خوب لکھتے ہیں،آپ نے اپنے بزرگوں کے محیرالعقول واقعات لکھے ہیں‘ان سے میں متاثر ہوا۔ تمام مضامین بہت دلچسپ اور دلکش ہیں،


منشا یاد اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں۔

حیدر قریشی نے سچ کادامن کہیں نہیں چھوڑا ۔یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریر میں متاثر کرنے کی قوت ہے ۔ان کے خوبصورت اندازِِ تحریر نے اسے اوربھی دلنشین بنادیاہے۔۔۔۔ میری محبتیں ‘‘خاکوں کا ایک بہت ہی خوبصورت اور خیال انگیز مجموعہ اورخاکہ نگاری کے فن میں ایک اہم اضافہ ہے۔

مصر میں اردو کے اسکالرہانی السعید لکھتے ہیں۔

’’میری محبتیں‘‘میری نظر میں اردو خاکہ نگاری میں ہی نہیں مجموعی اردوادب کی بھی ایک بڑی اہم کتاب ہے۔

ڈاکٹر رضیہ حامد لکھتی ہیں۔

’’میری محبتیں ‘‘کئی مرتبہ پڑھ چکی ہوں اور یہی حال رہا تو میں اس کی حافظ ضرور ہو جاؤں گی۔ آپ کی تحریر میں بلا کی سادگی اور قاری کو باندھ رکھنے کی طاقت ہے۔درد کی پوشیدہ لہریں دل و دماغ میں اندر تک اتر جاتی ہیں اور قاری اپنے آپ کو قاری نہ سمجھ کر حیدر قریشی بن جاتا ہے۔یہ آپ کی تحریر کا کمال ہے۔‘‘

قاضی اعجاز محور کی رائے ہے۔

یہ خاکے جہاں حیدرقریشی کی محبتوں کے امین ہیں وہاں ہمارے معاشرے کے ایک عام گھرانے کے طرزِتمدن کا بھرپور عکس بھی ہیں۔ "میری محبتیں"صرف محبتوں کی داستان ہی نہیں بلکہ اس میں خود مصنف سمیت ہر عمر کے افراد کا رزارِحیات میں سرگرمِ عمل دکھائی دیتے ہیں اور اس طرح یہ کتاب حیاتِ انسانی کے لیے جدو جہد کا ایک پیغام بن جاتی ہے۔

خاور اعجاز لکھتے ہیں۔

حیدر قریشی کی یہ تحریریں محبت کی چاشنی میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ کہیں کہیں ہلکا سا طنز یا مزاح کا پہلو لئے ہوئے کوئی چبھتی ہوئی بات بھی محبت ہی کا ایک اظہار ہے۔

انگلینڈ کے محمود ہاشمی رقم طراز ہیں۔

آپ کی بھیجی ہوئی’’میری محبتیں‘‘مجھے مل گئی ہے۔یقیناََ یہ کتاب کا کمال ہے کہ اسے پڑھنا شروع کیا تو پڑھتا ہی گیا۔او ر اس وقت تک کسی اور طرف توجہ دینے کا ہوش ہی نہ رہا جب تک کہ وہ ختم نہ ہوگئی۔آپ کی’’محبتیں‘‘پڑھی تو آپ کے قلم اور مشاہدہ کا قائل ہونا پڑا۔

رؤف خیرکہتے ہیں۔"میری محبتیں" اتنے دلچسپ اسلوب میں لکھی گئی ہے کہ کتاب ہاتھ سے رکھنے کو جی نہیں کرتا۔


سید وقار معین کی رائے ہے۔ " میری محبتیں" تازہ ہوا کے جھونکے کا احساس دلاتی ہے۔ یقین ہے کہ یہ ہمیشہ ذوق و شوق سے پڑھی جاتی رہے گی اور اردو میں خاکہ نگاری کی ایک دلکش اور منفرد جہت کے طور پر تاریخ ادب میں اس کا حوالہ ناگزیر ہو گا-


فاروق شکیل اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

حیدر قریشی کی تحریر میں مقناطیسی کیفیت ہے جو قارئین کو پیار کی ڈور سے باندھے ہوئے ان بستیوں میں لے جاتی ہے جہاں کی مٹی میں مہرو وفا کی مہک ہے اور وہ کردار ہیں جو ابا جی،امی جی،دادا جی،نانا جی،تایا جی،ماموں ناصر،آپی،مبارکہ،چھوٹے بھائی طاہراور بچوں کی صورتوں میں نظر آتے ہیں۔ان تمام سے مل کر اپنائیت کا ایسا احساس جاگتا ہے جیسے وہ سب ہمارے اپنے ہی ہیں۔

عظیم انصاری لکھتے ہیں۔

اندازِ تحریر میں اتنی برجستگی ہے کہ کہیں بھی احساس نہیں ہوتا کہ آپ اس گھر کے فرد سے پہلی بار مل رہے ہیں۔اس حصّے میں حیدر صاحب کی بے تکلفی،قرابت داری اور جذباتی والہانہ لگاؤ کا عکس اس انداز میں نمایاں ہیں کہ بعض اوقات قاری کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔خاکہ نگاری کا اس سے عمدہ نمونہ اور کیا ہو سکتا ہے۔

سلطانہ مہر لکھتی ہیں۔

حیدر قریشی کی ادبی حیثیت کے کئی پہلو ہیں۔اتنی رنگا رنگی کم ہی شخصیتوں میں پائی جاتی ہے۔ ان کی شاعری، تنقید‘افسانے اور خاکے پڑھ کرمیں اس نتیجے پر پہونچی کہ خاکہ نگاری میں انہیں کمال حاصل ہے۔ اس دلنشیں اندازمیں انہوں نے شخصیات کے واقعات کے‘ماحول کے اور قصّوں کے قلمی نقشے تراشے ہیں کہ قاری ان کے سحر میں گم ہوجاتا ہے۔

ترنم ریاض کی بے ساختہ رائے یوں ہے۔

’میری محبتیں ‘ تو کمال کی کتاب ہے سیدھی،سنجید ہ باتیں لکھتے ہوئے حیدر قریشی جو ہلکا سا مزاحیہ رنگ دے کر جملہ مکمل کرتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے قہوہ پیتے پیتے الائچی کا کوئی دانہ دانت تلے آکر ذہن و دہن کو خوشبو سے معطر کر جائے۔

محمد اکرم(امریکہ )سے لکھتے ہیں۔چند ماہ قبل جب ‘‘عمر لاحاصل کا حاصل‘‘ پڑھنے کا موقع ملا تو لطیف تر حسیات رکھنے والے اس منکسر المزاج اور رقیق القلب شخص سے ملاقات ہوئی تو لطف دو آتشہ ہو گیا ۔آج مدرز ڈے کے حوالے سے حیدر قریشی کی تحریر پڑھ کر مجھے اپنی ماں یاد آگئی اور ایک ایک لفظ کے ساتھ جہاں حیدر قریشی کی امی جی کو تصور (ویژولائز) کر تارہا وہیں اپنی امی جی کا چہرہ آنکھوں کے سامنے لاکر اشکبار ہو تا رہا ۔ ماؤں کے سانجھا ہونے کا ایک یہ مفہوم بھی تو ہے۔


جاوید خان(جرمنی)سے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں۔حیدر صاحب!جو بے ساختگی اور سچائی میں نے آپ کی تحریر میں پائی ہے بہت کم لوگوں کے ہاں ملتی ہے۔مجھے ایک خاص سطح سے نیچے کی تحریریں بالکل متاثر نہیں کرتیں۔میں ادب کا ایک حقیر طالب علم ہوں لیکن سچائی کی تلاش میں رہتا ہوں۔بناوٹ یا بڑے نام میرے نزدیک کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔نہ ہی مجھے کبھی کسی کی دولت مرعوب کرتی ہے۔یہ سب میرے لئے سطحی اور چھوٹی باتیں ہیں۔خدا آپ کا زورِ قلم اور زیادہ کرے۔جو راہ آپ نے اپنے لئے منتخب کی ہے وہ ’’زگ زیگ‘‘سہی۔مگر جاتی بہر طور منزل کی طرف ہے۔اس لئے کہ جذبوں کی صداقت اپنا رستہ خود متعین کرتی ہے۔لکیروں کے ڈسے مجھ سے لوگوں کے لئے آپ بہر حال خضر راہ ہیں۔


ناصر نظامی(ہالینڈ) سے ان الفاظ میں محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ آپ کی کتاب ’’میری محبتیں‘‘قابلِ تعریف ہے۔آپ نہایت عمدگی سے کرداروں کے حالات و واقعات کی اور جذبات و احساسات کی تصویر کشی کرتے ہیں۔آپ کی تحریر میں کمال کا رچاؤ‘ چٹکیاں‘ دردمندی‘ بلند حوصلگی اورگہری محبت کا اظہار پایا جاتا ہے۔آپ کے اندر محبت کا اتھاہ گہرا سمندر موجزن ہے جو ابھی تک اپنے جیسے کسی اور عمیق سمندر کی تلاش میں سرگرداں ہے۔آپ کی تحریر میں میں نے محبت کی طلسماتی اور ماورائی فضاؤں جیسی کیفیت محسوس کی ہے۔کچھ ایسا جو روحانی دیوتاؤں کا ورثہ ہوتا ہے۔جو روحانیت کے عارفین کا نصیب ہوتا ہے۔مجھے آپ کے ہاں ایک روحانی ولائت کی جھلک دکھائی دی ہے۔


ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی لکھتے ہیں۔ ابھی’’ میری محبتیں ‘‘پڑھ رہا ہوں۔بعض خاکے پڑھ کر آپ کی زندگی کے اتار چڑھاؤ سے بے حد متاثر ہوا ہوں۔مجھے لگا کہ ذہنی سفر میں میرا آپ کا ساتھ ہو گیا ہے۔لکھنے بیٹھوں گا تب میں اپنے جذبات کو کس طرح سمیٹ پاؤں گا‘کہنا مشکل ہے ۔ابھی صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ آپ کی یہ کتاب شاہکار کا درجہ رکھتی ہے۔بہت بہت مبارک باد

اسلم حنیف رائے دیتے ہیں۔نرم اسلوب سے جھانکتی ہوئی تصویریں جاذب نظر ہی نہیں قابلِ تقلید بھی بن گئی ہیں۔خاکہ نگاری نہ ہی کارگہ شیشہ گری ہے اور نہ ہی فن بت تراشی یا مصوری اور فوٹو گرافی‘بلکہ یہ تو ایک طرح کی کلوننگ ہے۔آپ نے جن ہستیوں کی کلوننگ کی ہے ان میں ہر ہستی اپنے مکمل وجود کے ساتھ اُبھر آئی ہے۔یہی آپ کے اسلوب اور فن کی بڑی کامیابی ہے۔

سعید انجم(ناروے)سے رقم طراز ہیں۔خاکوں پر مشتمل آپ کی کتاب ’’میری محبتیں‘‘مجھے ملی۔اس عنائت کے لئے آپ کا بہت بہت شکریہ!’’روشنی کی بشارت‘‘کے افسانے پڑھنے کے بعد آپ کے ساتھ جو تعارف ہوا تھا‘اس کتاب کے مطالعہ کے بعد اس نے ایک اور منزل طے کر لی ہے۔آپ سے شناسائی کی سمت’’میری محبتیں‘‘ایک دلگداز پھاٹک کی مانند ہے۔

مقصود الٰہی شیخ(انگلینڈ) سے لکھتے ہیں۔آپ کی کتاب ’’میری محبتیں‘‘دیکھنی شروع کی ہے۔لگتا ہے آپ کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے۔کہہ سکتے ہیں اور کہنے کا یارا بھی ہے۔میرا دل چاہا کہ آپ کو بتا ؤں کہ جو پڑھا ہے‘ پسند آیا ۔آپ نے بڑی مشکل باتیں بڑی آسانی سے لکھ دی ہیں‘آپ کو اس کی داد ملے گی۔یوں تو ابا جی ‘امی جی اور دادا جی پر مضامین’’ودھیا‘‘ہیں مگر ان میں احترام کا عنصر جھلکتا ہے۔’’ڈاچی والیا موڑ مہارو ے‘‘میں آپ کا شریر ریمارک ہونٹوں پر تبسم لاتا ہے‘پَر جس بے تکلفی سے آپ نے اپنے نانا جی پر لکھا ہے وہ سب سے زیادہ نمبر لے گیا۔بڑی بے ساختگی ہے‘روانی ہے اور گندھی ہوئی خوشگواریت لا جواب ہے۔۔۔۔۔۔مجھے جوگندر پال جی سے مکمل اتفاق ہے کہ یہ کتاب بہت دلچسپی سے پڑھی جائے گی۔۔۔۔میں کہنا چاہ رہا ہوں شاعری آپ کا شوق ہے۔ٹھیک ہے ورنہ آپ کی نثر میں شاعروں سے اچھی اور زیادہ شعریت ہے۔


نیاز احمد صوفی لکھتے ہیں۔آپ کے خا کے ’’میری محبتیں‘‘ماشاء اﷲ زبردست ہیں۔یہ نہ صرف آپ کی محبت کی غمازی کرتے ہیں بلکہ اس ثقافتی پس منظر اور روایات کو اجاگر کرتے ہیں جن میں آپ کی تربیت اور ذہنی نشوونما ہوئی ہے۔آپ کے دیکھنے پرکھنے کے انداز کا اچھوتا پن اور یوں ایک مخصوص زاویے سے زندگی کرنے کی دعوت‘ان خاکوں کا نمایاں پہلو ہیں۔

بیگم وسیم راشد لکھتی ہیں۔حیدر کے یہ خاکے اس لیے بھی اہم ہیں کہ ان میں ہمیں اپنی زندگی کا عکس نظرآجاتاہے ۔یہ احساس رہتاہے کہ یہ سارے اسی کے ہی نہیں ہمارے بھی قرابت دار اور جان پہچان والے ہیں ۔

اوّل خویش : برگد کا پیڑ

 برگد کا پیڑ
(اباجی)

گلابوں کی مہک تھی یا کسی کی یاد کی خوشبو
ابھی تک روح میں مہکار کا احساس باقی ہے

۔۔۔۔۔باپ بیٹے کے مابین اوّلین تعارف کاکوئی واقعہ بیان کرنااس لحاظ سے بے معنی سی بات ہے کہ یہ تعارف توخون کے اجزا میں سے ڈھونڈ نکالنا بھی مشکل ہے۔ صدیوں پہلے ہم اپنے آباؤ اجداد کے لہو میں موجزن تھے۔ اپنی پیدائش سے پہلے میں اباجی کے لہو میں رواں تھا تو اباجی اپنی وفات کے بعد بھی میرے دل میں دھڑک رہے ہیں۔ اس کے باوجود شعوری سطح پراباجی سے میرا پہلا معانقہ اس وقت ہواجب میری عمر تقریباً تین سال تھی۔ یہ واقعہ آج بھی میرے شعور میں ایک ہیُولے کی طرح موجود ہے۔ یوں تو ہر انسان اپنے بچپن میں فطرت سے بہت قریب ہوتاہے لیکن مجھے بچپن میں فطرت سے کچھ زیادہ ہی پیارتھا۔ چنانچہ جیسے ہی موقعہ ملتا الاسٹک والی نیکر اور ٹچ بٹنوں والی شرٹ اتار کر فطری لباس پہن لیتا۔ ایسا ایک موقعہ مجھے اُس وقت ملا جب امی جی سامنے والے گھر کی بُوازیبو کے ہاں گئیں اور میں فطری لباس پہنے گھر سے نکل کھڑاہوا۔ رحیم یارخاں کے محلہ قاضیاں سے (موجودہ)جدید بازار تک کئی پیچ دار رستوں سے نجانے میں کس طرح گزرتاچلاگیا۔ اباجی وہاں اپنے ایک دوست ممتاز صاحب کی دوکان پر کھڑے تھے۔ میں جاکر ’’ابوا‘‘کہتے ہوئے ان کی ٹانگوں سے لپٹ گیا۔ انہوں نے سمجھا کسی کا بچہ ہے جو خوامخواہ ان سے چمٹ گیاہے۔ چنانچہ میرے معانقہ کے جواب میں انہوں نے میری طرف دیکھے بغیر مجھے اپنے سے الگ کرکے پرے کردیا۔ میں پھر ’’ابوا‘‘ کہتے ہوئے ان کی ٹانگوں سے چمٹ گیا۔ اس بار پھر انہوں نے دیکھے بغیر مجھے پرے دھکیل دیا اور میں اپنے حواس درست کئے بغیر تیسری بار پھر ’’ابوا‘‘ کہہ کر ان کی ٹانگوں سے معانقہ کرنے لگا۔ لیکن اب اس سے پہلے کہ اباجی مجھے پھر پرے دھکیلتے ممتاز صاحب کی نظر مجھ پر پڑگئی۔ انہوں نے حیران ہوتے ہوئے اباجی سے کہا: قریشی صاحب!یہ تو حیدر ہے۔ اب جو اَباجی نے پلٹ کر دیکھا تو میری میلی کچیلی، ننگ دھڑنگ حالت ہی میں مجھے اٹھالیا۔ پھر سب کچھ بھول بھال کر گھر کی طرف چل دیئے۔ راستہ بھر باربار مجھے خود سے لپٹاتے اور چومتے جاتے۔ گھر پہنچے تو وہاں میری گمشدگی پر کہرام برپاتھا، یہ اباجی سے گویا شعوری سطح پر میرا پہلا تعارف تھا۔
۔۔۔۔۔اباجی وضع دار انسان تھے۔ روایات سے محبت رکھتے تھے مگر زمانے کے ارتقاکی سچائی کو مانتے تھے۔ ۱۹۶۰ء تک پھندنے والی رومی ٹوپی پہنتے رہے۔ اس ٹوپی کو ترکی ٹوپی بھی کہتے تھے۔ پھر کلاہ کے ساتھ لنگی باندھنی شروع کی اور جناح کیپ بھی استعمال کرتے رہے۔ آج اباجی کی ساری زندگی کی طرف نظر دوڑاتاہوں تو مجھے ان کے اندر بیک وقت ایک دراوڑ، ایک آریا اور ایک عرب بیٹھا نظر آتاہے۔ ان کی زندگی کے ابتدائی ایام میں دراوڑ حاوی رہا۔ عالم شباب میں نواب بھاولپور تک رسائی حاصل کرکے انہیں بھاول نگر محکمہ پولیس میں محرر لگوایاگیاجب سارا سامان باندھ کر روانہ ہونے کا وقت آیا تو داداجی نے دبی زبان سے کہا: بیٹا!۔۔توپھر جارہے ہو؟۔۔ اچھا جاؤ، ویسے دل نہیں کرتا کہ جاؤ۔
اباجی نے فوراً کہا:دل تو میرا بھی نہیں کرتاکہ جاؤں، اس لئے نہیں جاتا۔۔ یہ کہہ کر بندھاہواسامان کھول ڈالا۔
۔۔۔۔اباجی نے یہ قصہ بڑے مزے لے کر ہمیں سنایاتھااور پھر کہا تھا: بھئی ہم سرائیکی لوگ تو اپنے شہر کے ریلوے اسٹیشن پر پہنچ کرہی پردیسی ہوجاتے تھے۔ یہ واقعہ تقسیم برصغیر سے پہلے کاہے۔ اگر ان پر ان کے اندرکا دراوڑ حاوی نہ ہوتاتو وہ کم از کم ایس پی کی حیثیت سے ریٹائر ہوتے۔۔ بعد میں جب خراب حالات باربار حملہ آور ہونے لگے تو یوں لگا جیسے دراوڑ مغلوب ہوگیاہے اور اباجی کے اندر کا آریا فاتح ہوگیاہے۔ رحیم یارخاں والا گھر فروخت کیا گیاتو اباجی کے چہرے پر کوئی کرب نہیں تھا۔میں تب صرف دس برس کا تھا مگر وہ گھر آج بھی نہ صرف میرے نہاں خانۂ دل میں آباد ہے بلکہ مجھے جب بھی رحیم یار خاں جانے کا موقعہ ملتاہے، اس گھر کو دیکھنے کے لئے ضرور جاتاہوں اور وہاں دیر تک بچپن کی یادوں میں گھرارہتاہوں۔ خانپور والا گھر فروخت ہواتو اباجی کے چہرے پر کوئی اداسی نہ تھی۔ یوں ان کے اندر کا آریافتح یاب ہوگیا۔ مگر دراوڑ مغلوب کہاں ہوا؟ اس نے بیوی بچوں کو دھرتی کا متبادل بنالیا، ایک معمولی سی مدت کے علاوہ بیوی بچوں کو خود سے کبھی جدانہیں ہونے دیا۔
۔۔۔۔۔اندرکے آریااور دراوڑ کی کشمکش سے بے نیاز ایک عرب درویش ہمیشہ اباجی کے اندر موجود رہا۔یہ درویش خواب بین، دعاگو اور صاحبِ کشف و کرامت تھا۔ عرب درویش کاکمال یہ تھاکہ نیل آرمسٹرانگ سے دس سال پہلے اس نے چاند کی سرزمین پر قدم رکھ دیا تھا۔ اباجی نے ۱۹۵۹ء میں خواب دیکھا کہ وہ چاند کی سرزمین پر اترے ہوئے ہیں۔ وہاں کے پہاڑ دیکھنے میں ایسے لگتے ہیں جیسے راکھ کے ہوں اور پاؤں رکھتے ہی راکھ میں دھنس جائیں گے۔ لیکن اباجی پہاڑ پر پاؤں رکھتے ہیں تو وہ پتھر کے ہی ہوتے ہیں۔
Rain Makers اورRain Breakers
کے چند قصے تو اب پڑھنے کو ملے ہیں۔ مگر اباجی کی ’’وِل پاور‘‘ اور ’’ارتکاز‘‘ کا کرشمہ تو ہم نے خود دیکھا تھا۔اباجی اور امی جی میں ’’بزرگی‘‘ کے مسئلہ پر مذاق چلتارہتاتھا۔ اباجی نے کہا: اگر میں اللہ میاں سے دعاکرکے اسی وقت بارش کروادوں تو میری بزرگی کو مان لوگی؟۔۔ رحیم یارخاں میں گرمیو ں کی چلچلاتی دھوپ میں بادلوں کا دور دور تک نشان نہیں تھا۔ اس لئے امی جی نے للکارتے ہوئے شرط منظور کرلی۔ اباجی مکان کی چھت پر چڑھ گئے۔ تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد جب چھت سے نیچے آئے، چاروں جانب سے گھنگھور گھٹائیں امڈی چلی آرہی تھیں۔ موسلادھار بارش شروع ہوگئی۔ لیکن امی جی نے اباجی کی بزرگی کو نہیں مانناتھا، نہیں مانیں۔
۔۔۔۔۔مریضوں پردم کرنا اور کسی کی خاص غرض کے لئے خصوصی دعاکرنا ان کی روحانیت یاوِل پاورکا عام سا کرشمہ تھا۔میری ایک بہن زبیدہ کو جب بھی بخارہوااور دوا سے فرق نہیں پڑا، اباجی نے اسے بھینچ کر گلے سے لگایااور وہ ٹھیک ہوگئی۔ میرے نزدیک ایسے متعدد واقعات کے باوجود اباجی کی سب بڑی کرامت یہ تھی کہ انہوں نے دکھوں سے بھری ہوئی زندگی کو ہنسی خوشی گزارلیا۔ کلاتھ مرچنٹ سے ٹیلرماسٹر تک کاتکلیف دہ سفر طے کیا۔ پھر شوگرمل میں نوکری کرلی اور مجھے بھی شوگرمل میں جھونک دیا۔ حئی سنز شوگر ملز خانپور کے جنرل منیجر عزیز حسین کی بیگم بڑی نیک دل خاتون تھیں(اگر ابھی تک زندہ ہیں تو اللہ انہیں مزید زندگی عطا کرے) اباجی کا بے حد احترام کرتی تھیں۔ اپنے بہت سے خانگی معاملات اباجی کو بتاکر ’’دعا‘ ‘اور ’’دوا‘‘ دونوں کے لئے کہتیں۔ بیگم عزیز حسین کی نیکی کے سبب مجھے پندرہ(سولہ) برس کی عمر میں شوگرمل میں مزدوری مل گئی۔ میں نے اپنی زندگی کے بے حد قیمتی انیس سال اس شوگر مل میں بربادکئے۔ بیگم عزیز حسین کی نیک نیتی اور نیکی کے باوجود مجھے شدت سے احساس ہوتاہے کہ انہوں نے میرے لئے نیکی نہ کی ہوتی تو میں زیادہ بہتر حالت میں ہوتا۔
۔۔۔۔۔۔ شوگر مل کی ملازمت کے حوالے سے ہی یاد آیا کہ ملز انتظامیہ کے مزدور دشمن رویے کے باعث مجھے ٹریڈیونین سرگرمیوں میں حصہ لیناپڑا۔ ملز میں تصادم ہوا۔ بعض اہم افسروں کی ٹھیک ٹھاک پٹائی ہوئی۔ مقدمات بنے۔ اسی دوران مجھے بارباردھمکیوں کے ساتھ خوشنما آفرز بھی ہوئیں مگر میں جوش جوانی اور بغاوت کی دُھن میں ہرآفر کو ٹھکراتاچلاگیا۔ ایک مرحلے پر اباجی سے بھی کہا گیاکہ مجھے مفاہمت کے لئے راضی کریں۔ اباجی نے مجھے بتایاکہ مجھے اس طرح کہاگیاہے مگر تم جو فیصلہ اپنے طورپر کرناچاہو، وہی کرو۔ میں نے کہا کہ اگر آپ مفاہمت کا حکم دیتے ہیں تو میں تیارہوں۔ مگرانہوں نے کہا میں ایسا کوئی حکم نہیں دوں گا۔ تم خود فیصلہ کروگے اور جو بھی فیصلہ کروگے وہی درست ہوگا۔ چنانچہ میں نے مفاہمت کی بجائے بغاوت کا فیصلہ کیا۔ اس واقعہ سے میں پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتاہوں کہ اباجی اپنی وضع داری کی روایت پر تو قائم تھے مگر میرے باغیانہ رویے کو وہ بدلتے ہوئے سیاسی اور سماجی حالات کا لازمی تقاضا سمجھتے تھے۔ اسی لئے مجھے اس سے روکنے کے بجائے انہوں نے بالواسطہ میری حوصلہ افزائی کی۔ جب ہماری یونین کو معطل کرادیاگیا تب ہم سے ملنے والے ہر مزدور سے بازپرس کی جاتی تھی مگر اباجی کی اپنی شخصیت اتنی مضبوط تھی کہ نہ صرف انہیں ملز انتظامیہ کی طرف سے تنگ نہیں کیاگیا بلکہ ان کا اسی طرح احترام کیاجاتارہا جیسا میری بغاوت سے پہلے ہوتاتھا۔
۔۔۔۔۔اباجی بتاتے تھے کہ ہمارے خاندان میں کئی پشتوں سے بیٹوں کی کمی چلی آرہی تھی۔ ایک بزرگ کے ہاں دو بیٹے ہوئے۔ ان بیٹوں میں سے ایک کے ہاں اولاد نہ ہوئی اور دوسرے کے ہاں پھر دوبیٹے ہوئے۔ ان میں سے بھی ایک کے ہاں کوئی اولاد نہ ہوئی اور دوسرے کے ہا ں پھر دو بیٹے ہوئے۔ میاں میرمحمد کے ہاں تین بیٹے پیداہوئے۔ میاں سعید بے اولاد رہے۔ میاں غوث محمد کے ہاں ایک بیٹا ہوامگر اگلے مرحلے میں ان کی نسل بھی ختم ہوگئی۔ میاں اللہ رکھاکے ہاں دوبیٹے ہوئے، باباجی اور اباجی۔۔ باباجی کے ہاں اولاد نہ ہوئی اور اباجی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
۔۔۔۔۔اباجی نے دو شادیاں کیں۔پہلی بیوی عزیز بی بی نے اس ا لزام کی بنیاد پر عدالت کے ذریعے طلاق لی کہ یہ شخص اولاد پیداکرنے کے قابل نہیں۔ پھر اباجی کی شادی ہماری امی جی سے ہوئی اور یکے بعد دیگرے دس بچے پیداہوئے۔ پانچ بیٹے، پانچ بیٹیاں۔۔ عزیز بی بی نے دوسری جگہ شادی کرلی مگر اولاد سے محروم رہی۔
۔۔۔۔۔ایک دفعہ بواحیات خاتوں ہماری چھوٹی بہن بے بی کو لے کر ایک رشتہ دار کے یہاں گئیں۔ وہیں اباجی کی پہلی بیوی آگئی۔ بے بی کو دیکھتے ہی چونکی۔ اس کے استفسار پر بواحیات خاتوں نے بتایاکہ قریشی غلام سرور کی بیٹی ہے۔ اسی وقت بے بی کو گود میں لے کرپیارکرنے لگی۔اباجی کی اولاد کی تفصیل پوچھی۔ بواحیات خاتوں نے تفصیل بتادی۔ سن کر سارے بچوں کو درازئ عمر کی دعائیں دینے لگی اور پھر حسرت سے کہنے لگی مجھے میری زیادتی کی سزا مل گئی ہے۔۔ چند دنوں کے بعد اباجی کی پہلی بیوی کی طرف سے کھانے کی چند اشیاء کا تحفہ ہمارے گھر آیا۔ مگراباجی نے ساری چیزیں تلف کرادیں۔ کسی کو چکھنے نہیں دیں ان کا خیال تھاکہ ان اشیاء پر کوئی منفی قسم کا دَم کیاگیاہے۔۔ پہلی بیوی کی بے وفائی کے بعد اباجی کی امی جی سے شادی ہوئی تو دونوں کی عمروں میں بارہ سال سے زائد کا فرق تھا مگر اس بُعد نے محبت میں اضافہ کیا۔ اباجی اور امی جی کی محبت اور خوشگوار ازدواجی زندگی سارے خاندان کے لئے آج بھی ایک مثال ہے۔ ایک وقت تھاکہ ہمارے عزیزوں میں اباجی کاگھر سب سے زیادہ خوش حال تھا، پھر وہ وقت آیاکہ اباجی کا گھر انتہائی غربت کاشکار ہوگیا۔ بے حد قریب رہنے والے عزیز دور ہوگئے مگر اباجی کے مزاج میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اباجی بے حد قناعت پسند تھے مگر انہوں نے ہمیں کبھی قناعت کا درس نہیں دیا۔ دراصل وہ اس لئے سارے دکھ خوشی خوشی برداشت کر رہے تھے کہ پچھلی کئی پشتوں سے ’’پل صراط‘‘ پر چلتے ہوئے ان کے خاندان کو پانچ بیٹوں کو سنبھالا مل گیاتھا۔ حالانکہ یہ پانچوں بیٹے ان کے کسی کام نہ آسکے۔ نہ کوئی خدمت کرنے کا اہل ہوسکانہ کوئی خدمت کرسکا۔ ان کی اپنی ساری زندگی ہی مشقت کرتے گزر گئی۔
۔۔۔۔اباجی کو کبھی کبھی غصہ بھی آتا اور یہ غصہ عام طورپر گھر کے گھڑوں اور برتنوں پر اترتاتھا۔ لیکن جب شام کو اباجی گھر آتے،ان کے ایک ہاتھ میں نیاگھڑا اور دوسرے ہاتھ میں گلاب کے پھولوں کے ہار ہوتے اور جھگڑاختم۔
۔۔۔۔۔۱۹۵۰ء میں اباجی اچانک بیمار ہوئے تھے۔ اس علالت میں عجیب و غریب قسم کے دورے پڑتے تھے۔ باباجی کے بیان کے مطابق اباجی کو چارچارپانچ پانچ کڑیل جوانوں نے دبایاہوتاتھا مگر اباجی اس طرح اٹھ بیٹھتے کہ انہیں دبانے والے لڑھکتے ہوئے اِدھر اُدھر جاپڑتے۔ اباجی نے اس سلسلہ میں جو احوال سنایا، اس کے مطابق ان کے اوپر ایک بہت بڑا فانوس نصب تھا، حالانکہ تب ہمارے گھر میں بجلی ہی نہیںآئی تھی۔ اس فانوس سے سبز رنگ کی روشنی نکلتی تھی جو آنکھوں کو خیرہ کرتی تھی۔ اسی روشنی کے ذریعے ان کی بہت سے بزرگوں سے ملاقات ہوئی۔اباجی کے بقول ایک مرحلے پر انہیں خود علم ہوگیاتھاکہ ان کی جان نکل رہی ہے۔ ٹانگوں سے بالکل جان نکل چکی تھی مگر پھر انہیں دنیا میں مزید(۳۶سال) جینے کی اجازت مل گئی ۔ اباجی کی زندگی کی یہ سنگین بیماری، جس کے باعث سارے عزیز ان کی زندگی سے مایوس ہوچکے تھے حقیقتاً کوئی بیماری تھی یاکوئی روحانی تجربہ تھا،میں اس بارے میں تو کوئی حتمی بات نہیں کرسکتاتاہم بعد میں ان کی زندگی میں خواب بینی، دم درود اور کشوف کاجو سلسلہ نظرآتاہے وہ اسی تجربے سے ہی مربوط محسوس ہوتاہے۔ واللہ اعلم!
۔۔۔۔میری پیدائش سے چند ماہ پہلے اباجی نے یکے بعد دیگر دوخواب دیکھے تھے۔ پہلا خواب یہ تھاکہ ایک بڑا اور گھنادرخت ہے جس کی شاخیں دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اباجی اس درخت کے اوپر عین درمیان میں کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ خواب سن کر اباجی کے ایک دوست روشن دین صاحب نے کہا کہ آپ کے ہاں بیٹا پیدا ہوگاجو.....
۔۔۔۔دوسرا خواب یہ تھاکہ لمبے لمبے قد والے بہت سارے لوگ ہیں جو اپنے ہاتھ بلند کرکے ’’حیدر۔۔حیدر‘‘ کے نعرے لگارہے ہیں۔ ان دونوں خوابوں کے چند ماہ بعد میری پیدائش ہوئی۔ اباجی نے اپنے مرشد کو خط لکھا کہ بیٹے کا نام تجویز فرمادیں۔ مرشد کو اباجی کے خواب کا علم نہیں تھا۔ انہوں نے مجھے حیدربنادیا۔ مگر اباجی کے دونوں خوابوں کی تعبیر کا ابھی تو دور دور تک کوئی نشان نہیں ملتا۔ شاید حسن اتفاق تھاکہ میں پیداہوگیا اور حیدر نام رکھاگیا۔
۔۔۔۔میں بچپن میں شرارتیں بہت کرتا تھا۔ دوسروں کو ڈرانے میں مزہ آتا تھا۔ اسی وجہ سے بچپن میں اباجی سے بڑی مارکھائی۔ سب سے زیادہ ماربھی میں نے کھائی اور اباجی کی توجہ بھی سب سے زیادہ مجھے ملی۔ یہ اباجی کی ذاتی توجہ ہی تھی جس کے باعث اسکول میں داخلہ کے وقت مجھے کچی، پکی کی بجائے براہ راست دوسری جماعت میں داخل کرلیاگیا۔شادی کے بعد بھی ایک دفعہ اباجی سے تھپڑ کھایا۔ یوں تو والدین کی محبت ساری اولاد کے لئے یکساں ہوتی ہے لیکن میرا خیال ہے کہ اباجی کو آپی سے اور مجھ سے سب سے زیادہ پیارتھا۔ زبیدہ کے لئے فکر مندی زیادہ رہی جبکہ اعجاز سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے لاڈلارہا۔
۔۔۔۔موسیقی سے اباجی کو رغبت نہیں تھی لیکن اسے شجرِ ممنوعہ بھی نہیں سمجھتے تھے۔ ایک پراناگانا ’’ڈاچی والیا موڑ مہاروے‘‘ سن کر کہتے یہ تمہارے دادا کو بہت پسند تھا۔ اباجی کو حضرت خواجہ غلام فریدؒ کی کافیاں پسندتھیں۔عام طورپر تحت اللفظ کے ساتھ پڑھتے۔ کبھی کبھار اپنے آپ میں گنگنابھی لیتے۔ عنایت حسین بھٹی کی آواز میں خواجہ صاحب کی کافی ’’ساکوں سجناں دے ملن دی تانگ اے‘‘ سن کر جھوم سے اٹھتے۔ انھی کی وجہ سے ہی شاید مجھے لوک گیتوں اور صوفیانہ شاعری سے دلچسپی ہوئی۔ ایک ہلکی سی مسکراہٹ عموماً اباجی کے چہرے پر رہتی تھی۔ جملے باز نہیں تھے مگر اچھے جملے پر دل کھول کر داد دیتے تھے۔ ہنسی کی کسی بات پر اگر کھل کر ہنستے تو اتنا ہنستے کہ آنکھوں سے آنسو نکل آتے۔ ان کی اس کیفیت پر میراجی کاشعریادآگیاہے
نہیں گر یہ و خنداں میں فرق کچھ بھی
جو  ہنستا   گیا  دل  تو  روتا  گیا  دل
۔۔۔۔اباجی کی شخصیت کا جادو ایسا ہے کہ آج بھی رحیم یار خاں کے ان کے پرانے احباب سے ان کا ذکر کریں تو ان کی باتیں سناتے سناتے آبدیدہ ہو جاتے ہیں۔ رحیم یارخاں کے پرانے محلے سے جاکر پتہ کریں تو اباجی کا نام سنتے ہی ان کے چہروں پر محبت کی چمک آجاتی ہے۔ میں تقریباً دس سال کے بعد پہلی دفعہ پرانا مکان دیکھنے گیاتو نہ صرف اڑوس پڑوس کے سارے لوگ جمع ہوگئے بلکہ اتنی محبت سے اپنے گھروں میں لے گئے کہ میں ان محبتوں پر حیران رہ گیا۔ گھر کی لڑکیوں، عورتوں میں سے کسی نے پردہ نہ کیا، بوڑھیوں نے سرمنہ چوم لیا۔ یہ ساری محبتیں حقیقتاً اباجی کے وسیلے سے نصیب ہوئیں۔ شوگر مل میں آج بھی ان کی بات کی جائے تو کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ملے گا جو شرارتاً ہی ان کے کردار پر انگلی اٹھاسکے۔ دراصل اباجی صراط مستقیمی آدمی تھے۔ ایسا بننے کے لئے بڑی کٹھن ریاضت اور حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے۔میں بھی صراط مستقیمی بننے کی کوشش کرتاہوں مگر زگ زیگ چلتاہوں کیونکہ مجھے احساس رہتاہے کہ لکیریں اپنے فقیروں کو کھاجاتی ہیں۔
۔۔۔۔شروع میں اباجی کے ساتھ تعلق میں احترام کے باعث ایک حجاب یا فاصلہ سا تھا مگر رفتہ رفتہ یہ حجاب کم ہوتاگیا۔ یکسر ختم تونہیں ہوامگر ہمارے درمیان اتنی بے تکلفی ضرور ہوگئی کہ انسانی زندگی کے بعض حسّاس موضوعات پر ہم اطمینان سے گفتگو کرلیتے تھے۔بعض مسائل میں انہوں نے میری رہنمائی بھی کی۔ میرے مقابلے میں اباجی اپنے پوتوں سے زیادہ بے تکلف تھے۔ زلفی، شازی، ٹیپوتینوں ان کے ساتھ فری تھے۔ اباجی ان کے ساتھ مختلف گیمز کھیلتے، مزے سے ہارتے اور پھر پوتوں کی بے تکلف ہوٹنگ سے لطف اندوز ہوتے۔ پہلے پہل جب میں نے شازی کو ہوٹنگ کرتے دیکھا تو اس کی بدتمیزی کو محسوس کرتے ہوئے اسے سختی سے ڈانٹامگراسی وقت اباجی کی جوابی ڈانٹ مجھے پڑی کہ جیسے کرتے ہیں کرنے دو۔۔ تو میں نے دادا،پوتوں کی بے تکلفی سے خود کو الگ کرلیا۔
۔۔۔۔ علالت کی حالت میں اباجی باربارمجھے اور آپی کو یاد کرتے رہے یا پھر ٹیپو، مانو اورانس(چھوٹے پوتوں اور پوتی) کو یاد کرتے رہے۔ آپی نے کراچی میں کوئی خواب دیکھااور گھبراکر از خود اباجی کے پاس پہنچ گئی۔ اباجی نے آپی کو گلے سے لگالیا۔ دیر تک روتے رہے اور پھر کومے کی حالت میں چلے گئے۔ جب میں پہنچا کومے کی حالت میں تھے۔ باقی بہن بھائی بھی جمع ہونے لگے۔ شاہدہ، بے بی، اکبر، طاہر، اعجاز سب آگئے۔زبیدہ امریکہ میں تھی اس کا آنا ممکن نہ تھا۔ نوید نے پہنچنے میں تھوڑی دیر کردی۔۔ نوید آگیاتوپانچوں بیٹے باپ کے سرہانے کھڑے ہوگئے۔ باری باری سب نے سامنے آکر اپنا نام لیا۔ ہر آواز پر اباجی نے آنکھیں کھولیں اور ان کی آنکھوں میں غروب ہوتے ہوئے زندگی کے سورج نے ہر بیٹے، بیٹی اور عزیز کو خدا حافظ کہااور پھر وہ ہمیشہ کے لئے ہم سے جدا ہوگئے۔
۔۔۔۔اباجی کی وفات کے بعد ایک دوست نے تعزیتی خط میں لکھا کہ میں جب بھی خانپور میں قیام کے دنوں میں آپ کے گھر پر دستک دیتا۔ اگر آپ کے اباجی آتے اور میں ان سے آپ کا پوچھتاتو آپ کا نام سنتے ہی ان کی آنکھوں میں چمک سی پیدا ہوتی اور ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل جاتی ۔
۔۔۔۔رحیم یارخاں کے قریب ایک گاؤں ’’بستی قندھاراسنگھ‘‘(یاشایدبستی گندھارا سنگھ) کی ایک فیملی سے ہمارے رشتہ داروں جیسے تعلقات ہیں۔ اباجی کی وفات کے بعد خالہ فاطمہ وہاں سے تعزیت کے لئے آئیں تو انہوں نے بتایاکہ ان کے بھائی شاہ محمد صاحب پورے خاندان سمیت بھارتی پنجاب سے سیدھے اسی گاؤں میں آئے تھے۔ عید سے چند دن پہلے اباجی کی دکان پر گئے اور انہیں سونے کے کڑے دے کر کہنے لگے کہ اسے گروی رکھ کر ہمیں کپڑا اُدھار دے دیں تاکہ بچوں کی عید ہوجائے۔ اباجی ان کی پسند کے مطابق کپڑادیتے چلے گئے۔ جب ان کا مطلوبہ سارا کپڑا دے دیاتو اباجی نے سیف سے سو روپے کا نوٹ نکالا اور شاہ محمد صاحب سے کہایہ میری طرف سے آپ کے بچوں کے لئے عیدی ہے۔ سونے کے کڑے واپس لے جائیے اور کپڑوں کی رقم جب سہولت کے ساتھ دے سکیں، دے جائیے۔۔ کسی شناسائی کے بغیر اس سلوک پر شاہ محمد صاحب پہلے حیران ہوئے پھر آبدیدہ ہوگئے۔ نتیجتاً ان کے خاندان کے افراد سے آج بھی ایسا گہرا تعلق بناہواہے جو بعض رشتہ داروں کے ساتھ بھی نہیں ہے۔ البتہ خالہ فاطمہ کے اس انکشاف کے بعد مجھے یہ اندازہ ضرور ہوگیاکہ اباجی کا کپڑے کااچھا بھلاکاروبار زوال کا شکار کیوں ہوا۔
۔۔۔۔اباجی کی وفات کے بعد ہم نے ان کی میّت کو سرسے پیروں تک گلاب کے پھولوں سے بھردیاتھا اور پھولوں سمیت ہی دفن کیاتھا۔ وفات کے تیئسویں دن، رات کے نوبجے کے بعد اس کمرے کی کھڑکی سے گلاب کی خوشبوکی تیز لپٹیں اٹھنے لگیں جواباجی کاذاتی کمرہ تھا۔ یہ خوشبو پہلے امی جی نے محسوس کی اور مجھے کمرے میں بلایا۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی مجھے گلاب کی تیز خوشبو کا احساس ہوا۔ میں نے حیرت سے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے لمبے لمبے سانس لینے شروع کردیئے۔ میری ایک کزن خالدہ کے دیور شاہدحسین بھی اس وقت ہمارے گھر آئے ہوئے تھے۔ میں نے انہیں بھی کمرے میں بلالیا۔ انہوں نے بھی حیرانی کے ساتھ خوشبو کی موجودگی کی تصدیق کی۔ خوشبواتنی تیز تھی کہ باہر کی گلی میں بھی ہلکی ہلکی محسوس ہورہی تھی جبکہ کھڑکی سے تو خوشبوکاسیلاب امڈرہاتھا۔ ایک دن کے وقفے کے بعد دوپہر کو تقریباً ساڑھے بارہ بجے اسی کمرے میں پھر گلاب کے پھولوں کی تیز خوشبو پھیل گئی۔ اس خوشبو کو میں نے کمرے میں آکر محسوس کیا اور پھر آوازیں دے کر سارے افراد خانہ کو جمع کر لیا۔ سب نے ہی خوشبو کو محسو س کیا۔ چند منٹ کے بعد خوشبوغائب ہوتی چلی گئی۔ دونوں دفعہ خوشبو کا جانا ایسے لگاجیسے کوئی انسان آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ہوئے کمرے سے نکل رہاہو۔
۔۔۔۔ باباجی نے مجھے کہاکہ اگر تم اس معاملے میں دوسروں سے بات نہ کرتے تو یہ خوشبو وقتاً فوقتاً تمہاری ماں کو اور تمہیں ملتی رہتی۔ شاید خوشبو سے بڑھ کر بھی کچھ رونما ہوجاتا۔ مگر تم نے اس کا بھید افشا کرکے خود کو اس سے محروم کرلیاہے۔ باباجی کی باتیں باباجی جانیں۔ لیکن یہ خوشبوکیاتھی؟۔۔ اتنی سی بات ہی سمجھ میںآتی ہے کہ اگر آنکھ خواب تخلیق کرسکتی ہے تو قوتِ شامہ بھی خوشبو تخلیق کرسکتی ہے۔
***

مائے نی میں کِنوں آکھاں

مائے نی میں کِنوں آکھاں
امی جی

ماں! ترے بعد سے سورج ہے سوانیزے پر
بس تری ممتا کا اک سایہ بچاتا ہے مجھے

     راج دلارے!
او میری اکھیوں کے تارے
میں توواری واری جاؤں۔۔راج دلارے
.....
۔۔۔۔یہ مشہور لوری میں نے کوثرپروین کی آواز سے پہلے اپنی امی جی کی آواز میں سنی۔ امی جی نے یہ لوری اپنے سارے بیٹوں میں سے صرف میرے لئے گائی۔ ماں کی محبت اور دعاؤں سے بھری اس لوری نے مجھے پروان چڑھایا۔ امی جی کی وفات سے کوئی سال بھر پہلے مجھے چند ماہ گوجرانوالہ میں گزارنے پڑے۔ وہیں ایک روزشام کا کھاناایک ہوٹل میں کھارہاتھا۔ اچانک یہ لوری کیسٹ پلیئر سے نشر ہونے لگی۔ لوری شروع ہوتے ہی میں جیسے بچہ بن گیا اور میں نے دیکھا کہ امی جی نے مجھے۔۔ چھ ماہ کے بچے کو۔۔گود میں اٹھایاہوا ہے اور لوری سنارہی ہیں لوری ختم ہوگئی۔۔ میں بچپن عبور کرکے اپنی اصل عمر تک پہنچاتو دیکھاکہ، میں جو ابھی ماں کی گود میں کھلکھلارہاتھا، میری آنکھیں بھیگی ہوئیں تھیں۔ عجیب سا تجربہ تھا۔ کئی بار سوچا امی جی کو اس تجربے سے آگاہ کروں گا مگر پہلی محبت کے اظہار کی طرح اس تجربہ سے امی جی کو آگاہ نہ کرسکایہاں تک کہ وہ وفات پاگئیں۔
۔۔۔۔ پہلی محبت سے یاد آیاکہ میری پہلی محبت بھی میری امی جی ہیں اور آخری محبت بھی امی جی ہیں۔ اس اوّل اور آخر کے بیچ میں بہت سی محبتیں آئیں مگر درحقیقت وہ سب میری پہلی اور آخری محبت کا عکس تھیں۔ امی جی کاچہرہ کتابی اور گول چہرے کے بین بین تھا۔چنانچہ بیچ میں آنے والی میری ساری محبتیں بھی کتابی چہرے والی تھیں۔ اپنی بیوی سے میری گہری دوستی کی وجہ شاید یہی ہے کہ امی جی کی بھتیجی ہونے کے ساتھ امی جی سے کافی مشابہت بھی رکھتی ہے۔ ماہرین نفسیات اس کی جو چاہیں توجیہہ کرلیں، مجھے اعترافِ جرم سے عارنہیں۔
۔۔۔۔امی جی کی شادی کم عمری میں ہوئی۔ چودہ پندرہ برس کی عمر میں، تب اباجی کی عمر تقریباً ستائیس برس تھی۔ اباجی سرائیکی تھے، امی جی پنجابی۔ عمروں اورکلچر کے واضح فرق کے باوجودمیاں بیوی کی محبت کا کمال یوں ظاہرہواکہ اباجی دیکھنے میں پنجابی لگتے تھے اور امی جی سرائیکی لگتی تھیں۔ دونوں نے خود کو ایک دوسرے کے رنگ میں رنگ لیاتھا۔ من توشدم تو من شدی والا حال تھا۔
۔۔۔۔ہمارے معاشرے میں لگائی بجھائی کرنے والے ’’پھاپھے کٹنی‘‘ قسم کے کردار جابجانظرآتے ہیں۔ ہمارے عزیزوں میں بھی بعض ایسی خواتین موجود ہیں۔ امی جی کی حالت یہ تھی کہ فساد کراناتو ایک طرف، کوئی فساد کرناچاہتاتو اس سے بھی کوسوں دور بھاگتیں۔ کوئی آکرفساد کی تیلی لگاجاتاتو خودہی رودھوکر چپ ہوجاتیں۔ بعد میں آپی اور بے بی بھی امی کی طرح نکلیں۔ زبیدہ تو صبر جمیل میں امی جی سے بھی دو قدم آگے نکل گئی(اللہ اسے اپنی حفظ و امان میں رکھے) البتہ شاہدہ نے ہمت سے کام لیا۔ اس معاملہ میں امی جی کی پیروی نہیں کی۔ نہ صرف خود بولنے میں مہارت حاصل کی بلکہ بے بی جیسی بے زبان کو بھی زبان عطا کردی۔
اللہ کرے زور زباں اور زیادہ!
۔۔۔۔امی جی محبت،وفا اور ایثار کی روشن مشرقی مثال تھیں۔ شادی کے ابتدائی چند برسوں کے بعداباجی کا کاروبار زوال کا شکار ہوتاگیا۔ انتہائی تنگ دستی تک نوبت پہنچی۔ امی جی نے خدا سے تو شکوہ کرلیا مگر مجازی خدا سے کبھی شکایت نہیں کی بلکہ ہر رنگ میں ہمت بندھاتی رہیں۔ خدا سے شکوہ بھی اپنی جگہ ایک اہم واقعہ ہے۔ امی جی نے بے حد تنگ دستی کے باعث ایک بار انتہائی دکھ کے ساتھ کہا: خدایا!تو کہیں ہے بھی سہی یا نہیں؟۔۔ اسی رات امی جی نے خواب دیکھا: نہایت تیز روشنی ہے۔ جب اس کا منبع ڈھونڈنا چاہتی ہیں تو بڑی پُر ہیبت آواز آتی ہے۔۔ ’’حمیدہ!ادھر دیکھو میں تمہارا خدا ہوں‘‘۔ 
خوف اور رعبِ خداوندی سے امی جی کی آنکھ کھل گئی۔ سخت سردی کے موسم میں پسینے سے شرابور ہوگئیں۔ اُس دن سے لے کر موت کے دن تک پھر امی جی کو خدا کے وجود کے بارے میں کبھی شک نہیں ہوا ۔
۔۔۔۔اباجی کی ’’وِل پاور‘‘کے کئی کرشمے دیکھنے کے باوجود امی جی نے انہیں بزرگ تسلیم کرنے سے ہمیشہ انکارکیا۔ اس معاملہ میں ہمیشہ ہی اباجی کو چھیڑتی رہیں اور ہارکربھی ہار نہیں مانتی رہیں۔۔ ایک دفعہ کسی اَ ٹکے ہوئے کام کی وجہ سے امی جی فکرمند تھیں۔ میں نے ازراہ مذاق کہا چلیں اگر آپ کا یہ کام ہوجائے تو پھر مجھے بزرگ مانیں گی؟۔۔ فوراً بولیں : میں نے تمہارے باپ کو ساری زندگی بزرگ نہیں مانا تمہیں کیسے مان لوں گی۔ چل بھاگ جا۔ انگریز کی ولایت کا ویزا لگوا نہیں سکتا اور چلاہے خدائی ولایت کی طرف۔
۔۔۔۔میرے چھوٹے بیٹے ٹیپو کی عمر پانچ سال تھی۔ جب اس نے مجھ سے سوال کیاکہ اللہ میاں کہاں ہے؟ میں نے اسے سمجھایاکہ بیٹا! ہم اللہ میاں کو دیکھ نہیں سکتے۔ اس نے فوراً اعتراض کیاکیوں نہیں دیکھ سکتے؟۔۔ میں نے سوچا چھوٹا بچہ ہے اسے اس کے ذہن کے مطابق سمجھاتاہوں۔ چنانچہ میں اسے سورج کے سامنے لے گیا اور کہا سورج کی طرف دیکھو۔۔۔
اس نے دیکھنے کی کوشش کی اور پھر بے بسی سے کہا میں نہیں دیکھ سکتا۔ تب میں نے اسے سمجھایا کہ اللہ میاں کا نور اس سے بھی زیادہ تیز ہے اس لئے ہم اسے نہیں دیکھ سکتے۔ میں نے یہ قصہ امی جی کوبتایا وہ ہنس کر چپ ہوگئیں۔ اگلے دن ٹیپو نے اپنے چھوٹے چچا اعجاز کی گہری سیاہ عینک پہنی، سورج کی طرف دیکھنے کی پریکٹس کی اور پھر میرے پاس آیا۔ ’’میں اب سورج کی طرف دیکھ سکتاہوں‘‘۔ یہ کہہ کر اس نے عینک پہنی اور سورج کو دیکھنے کا مظاہرہ دکھایا اور پھر مطالبہ کیاکہ اب اللہ میاں بھی دکھائیے۔ میں ٹیپو کے مطالبے پر چکراگیا مگر امی جی نے ٹیپو کو پیارسے گود میں اٹھالیا اور کہنے لگیں بیٹے اگر تم اس مقام تک آگئے ہو تو ایک نہ ایک دن اللہ میاں کو بھی دیکھ لوگے۔ پھر مجھے کہنے لگیں پہلے انوکھے لاڈلے چاند مانگتے تھے مگر یہ تو اللہ میاں سے کم پر راضی ہی نہیں ہوتا۔
۔۔۔۔امی جی میں جمالیاتی ذوق کی فراوانی تھی۔ ستم ہائے زمانہ نے اسے کجلاتودیا مگر ختم نہ کرسکا۔ امی جی نے ایک زمانے میں پنجابی میں ایک طویل دعائیہ نظم کہی تھی اس کی ردیف ’’مولا‘‘ اور قافیہ دعا، صداوغیرہ تھا۔ اتناہی مجھے یادہے۔ افسانے اور ناول پڑھنے کا شوق بھی انہیں ایک عرصہ تک رہا۔ میری ادبی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرتیں۔ کسی اہم پیشرفت کی خبر سن کر خوش ہوتیں۔ میرے متعدد افسانوں میں امی جی کا کردار اپنی توانائیوں کے ساتھ براہ راست موجود ہے۔ ’’دھند کا سفر‘‘۔ ’’آپ بیتی‘‘ اور’ ’روشنی کی بشارت‘‘یہ تینوں افسانے ان کی زندگی میں ہی ’’نگار پاکستان‘‘ اوراق‘‘ اور ’’جدید ادب‘‘ میں چھپ گئے تھے۔’’روشنی کی بشارت‘‘ پڑھ کرکہنے لگیں کبھی میں تمہیں کہانیاں سنایاکرتی تھی اور اب تم میری کہانیاں بنانے لگ گئے ہو۔ چہرے پر مسّرت تھی۔ امی جی کے تبصرے نے بچپن کے کتنے ہی حسین مناظر کی فلم آن کردی:
نصف شب
جیسے خوشبو بھری گود
رِستے ہوئے زخم پر جیسے پھاہا
بدن کو تھپکتی ہوئی چاندنی
سر کے ژولیدہ بالوں میں پھرتی ہوئی
ریشمی انگلیاں
ماں کے ہونٹوں کی لَوپر
سلگتی ہوئی اک کہانی کے پر
سات رنگوں کے پر
قاف کی اُس پری کے
جسے ڈھونڈنے کے لئے شاہ زادہ
پہاڑوں کی جانب روانہ ہوا!
وفات کے بعد امی جی میری شاعری میں بھی آنے لگیں:
یہ ساری روشنی حیدر ؔ ہے ماں کے چہرے کی
کہاں ہے شمس و قمر میں جو نور خاک میں ہے
۔۔۔۔روایت ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ ماجدہ وفات پاگئیں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام حسبِ عادت دربار خداوندی میں بے تکلفی سے جانے لگے تو آواز آئی: موسیٰ! احترام کو ملحوظ رکھو۔وہ فوت ہوگئی جو ہر وقت تمہارے لئے دعائیں کرتی رہتی تھی اور جس کی دعاؤں کے طفیل تمہاری بے تکلفی برداشت کرلی جاتی تھی۔ وہ دعائیں کرنے والی نہیں رہی تو اب پورے احترام کے ساتھ آؤ۔ خداجانے یہ روایت کس حد تک درست ہے تاہم اس سے ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے جلیل القدر، عالی مقام اور کلیم اللہ کے لقب کے حامل پیغمبر کے گرد بھی ماں کی دعاؤں کا بہت بڑا حفاظتی حصارتھا۔۔ میں نہایت کمزور، عاجز اور گنہگار انسان ہوں۔ مجھے بھی امی جی کی زندگی تک ان کی دعاؤں کا بڑا سہارارہا۔ زندگی میں جب بھی کچھ ٹھان لیا ،کرگزرا۔ اس میں کامیاب نہیں ہواتو نقصان سے بھی بچتارہا۔ امی جی کی وفات کے بعد میں نے محسوس کیاکہ اب قدرت کی طرف سے پہلے جیسی رعائت نہیں مل رہی۔ اس حقیقت کو محسوس کرکے میں نے کہا تھا:
حیدر اب  اپنی عادتیں ، اطوارٹھیک کر
ابا بھی چل بسے تری ماں بھی نہیں رہی
۔۔۔۔بچپن میں۔۔امی جی نے ایک دفعہ میری شرارتوں سے تنگ آکر مجھے اباجی کے ساتھ دوکان پر بھجوادیا۔ اباجی نے وہاں سزاکے طورپر میری ٹنڈ کرادی۔ میں خوشی سے چھلانگیں مارتاہوا گھر آیا اور امی جی سے کہا: امی جی، امی جی۔۔ میں بھی ابو کی طرح ہوگیاہوں اب میں بھی ابو بن جاؤں گا اور پھر اپنے بچوں کو ڈانٹا کروں گا۔
۔۔۔۔رحیم یارخاں میں ہماری ایک ہمسائی بوازیبوہوتی تھیں۔ ان کے بیٹے ظفر سے ہم عمری کے باعث دوستی تھی۔ اس سے میں نے سرائیکی زبان میں ایک سلیس قسم کی گالی سنی جو اس نے اپنے گدھے کو دی تھی۔ مجھے وہ گالی بہت اچھی لگی۔ ایک اور موقعہ پر میں نے بھی ان کے گدھے کی شان میں وہی گالی’ ارشاد‘ کردی۔ امی جی کو پتہ چلاتو میری خوب مرمت ہوئی۔ وہ دن اور آج کا دن، پھر وہ گالی میرے منہ پر چڑھ ہی نہیں سکی۔
ہم خانپور میں تھے۔ میں غالباً ساتویں جماعت میں پڑھتاتھا۔ امی جی کو کسی کام کے سلسلے میں کراچی میں مقیم خالہ سعیدہ اور ماموں کوثر کے ہاں جانا پڑگیا۔ امی جی کو گئے ابھی تیسرا یا چوتھادن تھاکہ میں نے دوپہر کے وقت بآواز بلند رونا شروع کردیا۔ ابوجی پریشان۔۔ کہ معاملہ کیاہے۔ مجھ سے باربار پوچھیں کیا ہواہے؟ مگر شدّت غم سے منہ سے الفاظ ہی نہیں نکلتے تھے۔ بڑی مشکل سے ہچکیوں کے دوران ایک دو دفعہ امی۔امی کہہ سکا۔ اباجی بھی شاید اداس بیٹھے تھے۔ میرے رونے کا بہانہ ان کے ہاتھ لگ گیا، جھٹ امی جی کو تار بھیج دیا اور امی جی واپس آگئیں۔
۔۔۔۔امی جی فوت ہوئیں تو میں ساکت ہوگیا۔ آنکھیں ڈبڈباگئیں مگر ساون بھادوں کی وہ برسات نہ ہوئی جو دو سال پہلے اباجی کی وفات پر ہوئی تھی۔ اس بارے میں مجھے ابھی تک ایک مجرمانہ سا احساس ہے۔ کبھی سوچتاہوں اباجی کو امی جی کی ہم سے زیادہ ضرورت تھی۔ شاید اسی لئے موسلادھاربارش نہیں ہوئی۔ کبھی خیال آتاہے کہ میں تو امی جی کے حصے کا بھی اباجی کی وفات پرہی رو چکاہوں کیونکہ امی جی تو اباجی کی وفات کے ساتھ ہی فوت ہوگئیں تھیں۔ وہ تو صرف دعاؤں کا ایک مجسمہ تھاجو ہمارے ساتھ تھا، اب وہ بھی نہیں رہا۔۔ لیکن کبھی کبھی جب ماں کے سمندروجود اور اپنے جزیرے پن کا احساس جاگتاہے تو مجرمانہ احساس جیسے زائل ہونے لگتاہے:
کبھی جب رات ڈھلتی ہے
فلک سے قطرہ قطرہ اوس کی برکھااترتی ہے
کبھی جب پیاس کی شدت میں زخمی ہونٹ
بہتی تیز ندی کے سجل سینے پہ جھکتے ہیں
کبھی جب آنکھ رِستی ہے۔
تویوں لگتاہے جیسے ہم کبھی بچھڑے نہیں اس سے
کہ جیسے ہم جزیرے ہیں
تھپکتے، لوریاں دیتے سمندرکے
بلکتے زرد رُوبیمار بچوں کی طرح چمٹے ہوئے ہیں
ہماری ہجر توں کی داستاں جھوٹافسانہ ہے!
۔۔۔۔امی جی بیک وقت باحوصلہ بھی تھیں اور کمزور دل بھی۔۔ باحوصلہ اس طرح کہ نہایت کٹھن اور دکھ بھری زندگی کو ہمت اور صبر کے ساتھ بسرکیا۔ کمزور دل اس طرح کہ بادلوں کی گرج اور بجلی کی کڑک سے بھی سہم جاتیں۔ رحیم یارخاں قیام کے زمانے میں ایک بار اباجی دوکان سے جلد واپس نہ آسکے۔ امی جی نے سرشام ایک ہمسائی نانی اللہ وسائی کو گھر پر بلالیا۔نانی اللہ وسائی امی جی سے بھی زیادہ کمزور دل تھیں۔ اچانک بادل زور سے گرجے اور بجلی کڑکتی چلی گئی۔ نانی اللہ وسائی اور امی جی نے بیک وقت زور سے چیخ ماری اور ایک دوسری سے چمٹ گئیں۔ اباجی جب بھیگتے بھاگتے گھر پہنچے، امی جی نے روروکر بُراحال کرلیا۔ پھر اباجی سرشام ہی گھر آجایاکرتے تھے، لیٹ نہ ہوتے تھے۔
۔۔۔۔امی جی کو جب شوگر کی شکایت ہوگئی تو میں نے احتیاطی تدابیر کی طرف توجہ دلائی مگر ان کا ایک ہی جواب تھا، اگر میٹھی چیزیں کھانے سے موت آتی ہے تو آنے دو۔ میں نے بہت زیادہ اصرار کیا تو امی جی نے دودھ بغیر چینی کے پینا شروع کردیامگر مٹھائی کو پرہیزی لسٹ میں شامل کرنے کے لئے وہ آخردم تک تیار نہ ہوئیں۔بالآخر میٹھی چیزیں کھاکر ہی جان، جانِ آفریں کے سپرد کردی۔۔ اباجی کی وفات کے بعد دراصل امی جی میں زندہ رہنے کی خواہش ختم ہوگئی تھی۔ یوں لگتاہے جیسے وہ مٹھائی کو جان بوجھ کر بطور زہر کھارہی تھیں۔ اسی لئے اباجی کی وفات کے بعد دوسال کے عرصے کے اندر ہی امی جی فوت ہوگئیں۔
۔۔۔۔امی جی مجھے ڈاکٹر بنانے کی خواہش مند تھیں۔ میراذہن شروع سے ہی ’’نان میڈیکل‘‘ بلکہ ’’نان سائینس‘‘ تھا۔ ایک مرحلہ پر سوچا کہ اردو میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لے لوں۔ نام کے ساتھ ڈاکٹر تو لکھاجاسکے گا۔ پھر دیکھا کہ ایسے ایسے لوگ بھی ڈاکٹریٹ کرگئے ہیں کہ پی ایچ ڈی کہلاناباعث افتخار نہیں، باعث ندامت محسوس ہونے لگاہے۔ ا س سے بہتر ہے آدمی ’’گھر بیٹھے ہومیوپیتھک ڈاکٹر بنئے‘‘ کورس کرلے۔ اس سے خلقِ خدا کو فائدہ بھی نہیں ہوگاتو نقصان بھی نہیں ہوگا۔ آخریہ طے ہواکہ جہاں میں امی جی کی اور بہت سی خواہشیں اور خوشیاں پوری نہیں کرسکاوہیں اس خواہش کی عدم تکمیل پربھی ہلکے سے دکھ اور افسوس کے ساتھ ماندہ زندگی گزارلوں گا۔
۔۔۔۔امی جی کی گائی ہوئی لوری کاایک ایک لفظ الٹ ہوگیاہے۔ ان کی اکھیوں کے تارے کی اپنی قسمت کا ستارہ ہی کہیں گم ہوگیاہے۔ امی کے باغ کا البیلا پھول وقت کے صحرا میں خوددھول ہورہاہے۔ جس کے مکھڑے کے آگے چاندنی میلی لگتی تھی اس کا رنگ روپ بگڑچکاہے۔ حالات کا تپتا،دہکتاسورج سوانیزے کے فاصلے پر آن کھڑاہے۔ اب تو صرف اُس جنت کی امید ہے جوماں کے قدموں تلے ہوتی ہے:
ماں!ترے قدموں تلے جب راکھ اُڑتی ہے
تو سینے میں خلاجیسی کوئی شے گونجتی ہے
وہ گیت اب کھوگیاہے
تو بھی اب چپ ہوگئی ہے اور خلاویسے کاویسا ہے
مرے سینے میں تیری مامتاکانور اُترتاہے
مگر کچھ بولتابھی تو نہیں
اقرارکی ساعت ہمیشہ سے ادھوری ہے
نہ جانے کونسا کوہِ گراں ہے تیرے ہاتھوں پر....
یہ تو ہے یا کوئی خیمہ طنابوں کی شکست آثار مٹی سے نکل کر
زرد موسم کی ہوا میں لڑکھڑاتاہے۔
یہ میں ہوں یا کوئی سا یہ تری ممتا کی ٹھنڈی روشنی سے ٹوٹ کر
پاتال اندر ڈوبتاجاتاہے
ہم دونوں
محبت کی گواہی کی طلب میں
اپنے اپنے دل کی جانب رُخ کئے اپنے خدا سے پوچھتے ہیں
حشرکب تک آئے گا۔۔
***

ڈاچی والیا موڑ مُہارو ے

ڈاچی والیا موڑ مُہارو ے
داداجی

ایک اَن دیکھے کی سوچوں میں گھرا رہتا ہوں میں
اُس کی آنکھیں  اُس کا چہرہ  سوچتا  رہتا ہوں میں

۔۔۔۔میرے داداجی قیام پاکستان سے کئی برس پہلے فوت ہوگئے تھے۔ میں نے داداجی کو نہیں دیکھا مگر ان کے بارے میں اپنے دل میں ہمیشہ ایک انوکھی سی محبت محسوس کی۔ ان کے والد اور میرے پردادا حضرت میاں میر محمد گڑھی اختیارخاں کے پِیروں میں شمارہوتے تھے۔ حضرت خواجہ غلام فریدؒ کے روحانی دوست میاں درّمحمد (درّن سئیں) کے ساتھ رشتہ داری کا کچھ تعلق بھی تھا۔ پیری مریدی کا سلسلہ حضرت میاں میر محمد کو وراثت میں ملاتھااور یہی ان کی زندگی تھا۔ داداجی اپنے آباء واجداد کے پیری مریدی کے مروّجہ سلسلے سے بیزاری سی محسوس کرتے تھے۔ اباجی اس سلسلے میں داداجی کی جوانی کا ایک واقعہ سنایاکرتے تھے۔ داداجی کے ایک رشتہ کے کزن نے ایک دن داداجی سے کہا ایک کام کے سلسلے میں میرے ساتھ چلو۔ کئی کوس کا سفر کرکے دونوں ایک خستہ جھگی تک پہنچے۔ وہاں ایک مفلوک الحال شخص اپنی بیوی، بچوں اور ایک گدھی کے ساتھ موجود تھا۔ داداجی کے کزن نے اس سے اپنا تعارف کرایاکہ میں تمہارے پیرگھرانے کافرزند ہوں۔ وہ غریب بال بچوں سمیت ان کے قدموں میں بیٹھ گیااور عقیدت کاجاہلانہ اظہارکرنے لگا۔ اس پرداداجی کے کزن نے اسے کہنا شروع کیا:

’’دیکھو۔۔تمہاری اس جھگی میں میرا حصہ ہے‘‘
’’سئیں‘‘
’’تمہارے بیوی بچوں میں میرا حصہ ہے‘‘
’’سئیں‘‘
’’تمہاری گدھی میں بھی میرا حصہ ہے‘‘
’’سئیں‘‘
۔۔۔۔وہ غریب پیرسائیں کی ہربات پر’’سئیں‘‘(بجاارشاد!) کا اقرار کرتاگیا۔ آخر ان کے کزن نے کہاجاؤ نذرانہ لے کر آؤ۔اس غربت زدہ نے جھگی کے اندر سے کچھ مصری لاکر پِیرجی کی خدمت میں پیش کی اور داداجی اپنے کزن کے ساتھ لوٹ آئے۔۔ واپسی پر رستے میں داداجی نے اپنے کزن کو لعنت ملامت کی کہ اتنی سی مصری کے لئے مجھے اتنا لمبا سفر کرایا۔ جواباً کزن نے کہا: یار! مسئلہ مصری کانہیں تھا مریدپکاکرنے کا تھا سو مرید پکاہوگیاہے۔ میرا خیال ہے اس طرح کے پیروں کو مریدوں کا ظالمانہ استحصال کرتے دیکھ کر ہی داداجی پیری مریدی کے سلسلے سے بیزار ہوئے ہوں گے۔ کیونکہ پھر انہوں نے گڑھی اختیارخاں میں اپنے والد کی وراثت نہیں سنبھالی۔ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر خانپور چلے آئے اور یہاں فقیری زندگی بسر کی۔ گڑھی اختیار خاں کے پرانے کاغذات میں شاید میرے پردادا میاں میرمحمد کے نام کی زمینیں ابھی بھی موجود ہوں مگر داداجی نے نہ اپنی زمینوں کی طرف پلٹ کر دیکھا،نہ مریدوں کو قابو کرنے کاسوچا۔ آفرین ہے اباجی اور باباجی پر بھی کہ انہوں نے بھی اپنی پرانی زمینیں تلاش کرنے کی زحمت نہیں کی۔
۔۔۔۔خانپور میں داداجی نے ایک شریف گھرانے کی لڑکی ’’صاحب خاتوں‘‘ سے شادی کی۔ یہ میری دادی تھیں۔اباجی بتاتے تھے کہ وہ بمشکل چھ سال کے تھے جب ہماری دادی فوت ہوگئیں۔اباجی نے ایک لمبی سی قمیص پہنی ہوئی تھی۔ قمیص کی طوالت کے باعث نیچے کسی شلوار یاجانگیہ کی اُس زمانے میں ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ قمیص کی جیب میں ریوڑیاں اور مکھانے بھردیئے گئے تھے۔اباجی بتاتے تھے میں نے اپنی اماں کی تدفین کا سارا منظر دیکھا تھا۔زیادہ ترریوڑیاں مکھانے کھاکر دیکھتارہا۔ کبھی کبھار رونے بھی لگ جاتاکہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ دادی جان رحیم یار خاں میں فوت ہوئی تھیں۔ جب تک ہم وہاں رہے اباجی ہر محرّم کی دس تاریخ کو ہمیں ساتھ لے کر قبرستان جاتے۔ دادی جان کی قبر پر پھول پتے اور خاص طورپر کھجورکے پتوں کی چھڑیاں چڑھاتے۔ خیرات کرتے، دعاکرتے۔ خان پور چلے گئے تو پھر کبھی کبھار رحیم یار خاں دعا کے لئے چلے جاتے۔ ایک دفعہ رحیم یارخاں سے آئے تو اُداس اُداس تھے۔ خود ہی بتانے لگے میں ماں کی قبر بھول گیاہوں۔ بہت تلاش کی، نہیں ملی۔ قبرستان بہت پھیل گیاہے۔ قبرستان کے مین گیٹ پر ہی کھڑے ہوکر دعا کرآیاہوں۔ اس کے کچھ عرصہ بعد ہم نے خانپور میں موجود داداجی کی قبر پختہ کرالی تاکہ بعد میں یہ بھی گم نہ ہوجائے۔۔ داداجی نے اباجی اور باباجی کو ماں بن کر بھی پالااور باپ بن کربھی پالا۔ جب کچھ بڑے ہوگئے تو اباجی کو رحیم یار خاں میں ان کے ماموں کے سپرد کردیاور باباجی کو ان کی پھوپھی بوانور خاتوں کو سونپ دیا۔
۔۔۔۔داداجی معمولی سا بیمارہوئے اور فوت ہوگئے۔ گھر میں رونا پیٹنامچ گیا۔ سارے عزیز و اقارب جمع ہوگئے۔ داداجی کو غسل دے دیاگیاتو اٹھ کر بیٹھ گئے۔ وفات کی خبر سن کر آئے ہوئے سارے لوگ خوفزدہ ہوگئے۔ کچھ چیختے چلاتے گھرسے نکل بھاگے، ایک دو عزیز دہشت سے بے ہوش ہوگئے۔ اباجی کو ’’شادئ مرگ‘‘ کا مطلب پوری طرح سمجھ میں آگیا۔ داداجی اُٹھ کر بیٹھ گئے اور فوراً کہنے لگے دوسری گلی سے اللہ رکھا کمہارکا پتہ کراؤ۔ وہاں سے پتہ کیاگیاتو معلوم ہواکہ ابھی ابھی بیٹھے بیٹھے ہی فوت ہوگیاہے۔۔داداجی نے ایک انوکھی کہانی سنائی۔ انہوں نے بتایاکہ مجھے دو سفید کپڑوں والے کہیں لئے جارہے تھے کہ ایک مقام پر رُکناپڑا۔وہاں موجود کچھ اور سفید کپڑوں والوں نے ایک رجسٹر چیک کیا(اسے عالم بالا کا شناختی کارڈ آفس سمجھ لیں)داداجی کولے جانے والوں کو، چیکنگ کرنے والوں نے کہا :باری تو اللہ رکھا کمہارکی تھی تم لوگ اللہ رکھا قریشی کو لے آئے ہو۔ چنانچہ غلطی معلوم ہوجانے کے بعد داداجی کو پھر اس دنیا میں واپس لایاگیااور اسی وقت اللہ رکھا کمہار کی موت واقع ہوگئی۔ جہاں تک اس واقعہ کی صحت کا تعلق ہے اباجی، باباجی، بواحیات خاتوں۔۔ سب نے یہ واقعہ اپنی چشم دید گواہی پر بیان کیا۔ چاچڑاں شریف اور کوٹ شہباز کے بعض دُور کے اور بوڑھے عزیزوں نے بھی تصدیق کی کہ ہم بھاگ نکلنے والوں میں شامل تھے۔ اس قصے کااصل بھید کیاتھا؟ یہ تو شا ید کوہ نداکی دوسری سمت جاکر ہی معلوم ہوسکے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سفیدکپڑوں والے سارے فرشتے سرائیکی زبان بول رہے تھے۔ ظاہر ہے انہیں علم تھاکہ ہمارے داداجی صرف سرائیکی زبان ہی جانتے ہیں۔
۔۔۔۔داداجی کے بارے میں مشہور تھاکہ کسی سائل کو خالی ہاتھ نہ جانے دیتے تھے۔ اباجی نے بتایاتھاکہ ایک دفعہ داداجی کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ ایک سائل آگیا۔داداجی نے کچھ سوچا اور پھر اپنی قمیص اتارکر اسے دے دی۔ خداکاشکر ہے کہ اس کے فوراً بعد کوئی اور سائل نہیں آگیا کیونکہ اس وقت داداجی کے جسم پر صرف ایک چادر تھی جو انہوں نے نیچے باندھی ہوئی تھی اور یہ تو طے ہے کہ انہوں نے سائل کو بہرحال خالی ہاتھ نہیں جانے دینا تھا۔ یہ جملہ لکھتے ہوئے مجھے ایسا لگاہے جیسے داداجی عالم بالاسے ہی میری شرارت پر مسکرارہے ہیں اور اباجی سے کہہ رہے ہیں: ’’غلام سرور!ڈیکھ گھِن اپنٹے پتر دے لقا‘‘(غلام سرور!اپنے بیٹے کی شرارت دیکھ لو)۔
۔۔۔۔داداجی کو بازپالنے کا بہت شوق تھا۔ شکارکے شوقین تھے۔ باز کے ساتھ شکارکھیلتے۔ گھر پر زیادہ تر شکارکاگوشت پکتاجوعموماً تیترکاہوتاتھا۔ شکار کے لئے کمان نما غلیل بھی استعمال کرتے تھے۔ یہ غلیل ایک عرصہ تک خانپور میں ہمارے پاس محفوظ رہی۔ میں اسے کمان سمجھتاتھا۔ ۱۹۷۳ء میں خانپور میں قیامت خیز سیلاب آیاتو ہمارا گھر گرگیا۔ وہ غلیل اسی سیلاب کی نذر ہوگئی۔
۔۔۔۔داداجی کے دور میں ان کے علاقے میں زندگی محدود تھی، وژن محدود تھا، داداجی ان حدود سے کچھ آگے نکلناچاہتے تھے سو محدود زندگی کی قید سے نکل کر لامحدود کی فضاؤں میں پرواز کرنے کے لئے کبھی کبھی افیون استعمال کرلیتے تھے۔ میں داداجی کو انقلابی آدمی سمجھتاہوں کیونکہُ اس زمانے میں بنے بنائے، بندھے بندھائے مرید چھوڑ کر آزاد نکل جانا بہت بڑا انقلابی قدم تھا۔ وہ روحانیت کا ڈھونگ رچاکر سادہ لوح لوگوں کے جذبوں کا استحصال نہیں کرناچاہتے تھے۔۔ داداجی جسمانی لحاظ سے دبلے پتلے تھے مگران کا جسم کسرتی تھا۔ شکار کے شوق کے باعث ان میں پھرتیلاپن بہت تھا۔ رنگ سانولا مگر نقش تیکھے تھے۔ ہماری بہن شاہدہ کو دیکھ کر باباجی اکثرکہاکرتے تھے یہ ہمارا اباہے۔
۔۔۔۔امی جی نے داداجی کو نہیں دیکھاتھا۔ امی جی بتاتی تھیں کہ ایک دفعہ اباجی کسی بات پر امی جی سے ناراض ہوئے۔ پھر حسبِ عادت صلح بھی کرلی مگر اباجی کی ناراضگی کے باعث امی جی کے دل پر گہرا اثر تھا۔اسی حالت میں سوگئیں۔ خواب میں دیکھاکہ ہمارے داداجی آئے ہیں۔ انہوں نے امی جی کے سرپردست شفقت رکھا، پیارکیا۔ امی جی کو کچھ نقدی دی اور کہا: میں غلام سرور کو ڈانٹوں گاآئیندہ تمہیں رنج نہیں دے گا۔امی جی کی آنکھ کھلی تو بے حد حیران ہوئیں۔ابا جی کو سارا خواب سنا کر دادا جی کا حلیہ بھی بتایا۔ اباجی بھی حیران ہوئے کیونکہ امی جی کا بیان کردہ حلیہ سوفیصد درست تھا۔ اس خواب کے تھوڑاعرصہ بعد داداجی کی دی ہوئی نقدی کے نتیجہ میں ہماری بڑی بہن آپی پیداہوئی۔
۔۔۔۔داداجی کو پرانی طرزکاگایاہواایک گیت بہت پسند تھا۔شاید انہیں دنوں میں اس گیت کا پہلاریکارڈ ریلیزہواہو۔ ’’ڈاچی والیا موڑ مہاروے!‘‘۔۔ مگر صحرا کی وسعتوں میں بڑھتے چلے جانے والے مہاراں کہاں موڑتے ہیں۔ داداجی گڑھی اختیارخاں سے چند کوس کے فاصلے پرتھے مگر وہ بھی پھر خانپور سے ڈاچی کی مہارموڑ کر گڑھی کی طرف کبھی نہیں گئے۔
۔۔۔۔اباجی بتاتے تھے:داداجی آخری ایام میں معمولی سا علیل ہوئے پھر ٹھیک ہوگئے۔ ان دنوں میں اباجی انہیں رات کودیر تک دباتے رہتے اور جب تک داداجی خود نہ کہتے کہ بیٹا بس کرو، تب تک دباتے رہتے۔۔ اُس رات اتفاق سے داداجی گہری نیند سوگئے اور اباجی اپنی دُھن میں ساری رات داداجی کو دباتے رہے یہاں تک کہ فجر کی اذان ہوگئی۔ تب داداجی چونک کر بیدارہوئے اور کہنے لگے غلام سرور! تم ساری رات دباتے رہے ہو۔۔ پھر دعائیں دیتے ہوئے کہنے لگے اب بس کرو۔ اباجی وہاں سے اٹھ کر محلے کی مسجد میں نماز پڑھنے چلے گئے۔ واپس آئے تو باباجی نے کہا: غلا م سرور!ابا فوت ہوگئے ہیں۔۔ ڈاچی والے عرب اور چولستان کے صحراؤں سے بھی آگے کائنات کے وسیع تر صحرا کی طرف چلے گئے اور کتنے اطمینان وسکون کے ساتھ چلے گئے۔
۔۔۔۔بچپن میں میری خواہش ہوتی تھی کہ جلدی سے بڑاہوکر ابو بن جاؤں اور اپنے بچوں کو ڈانٹاکروں۔ اب میری خواہش ہے کہ بچوں کی شادیاں کرکے دادابن جاؤں۔ پھر دادا بن کر اپنے پوتوں میں اپنے بچپن کو اور اپنے آپ میں اپنے داداجی کو دیکھوں۔ اپنے داداجی کے بارے میں مجھے علم ہے کہ:
وہ بڑ
کب کا صحرا کے سینے میں گم ہوچکاہے
مگر آج میں جانتاہوں
وہ میری ہی تصویرتھا
میرااوتارتھا
میراچہرہ تھاوہ
میں نے خود اُس کو بھیجا تھا
اپنی طرف
اسے خود بلاتاہوں اپنی طرف!
۔۔۔۔میری دادابننے کی خواہش دراصل اپنے داداجی کو بلانے کی خواہش ہے۔
ڈاچی والیا موڑ مہاروے!
مجھے یقین ہے ڈاچی والا میری آواز پر اس بار ضرور مہاراں موڑے گا۔ کیونکہ یہ اسی کی اپنی آواز ہے۔
***

مظلُوم متشدّ د

مظلُوم متشدّ د
ناناجی

زندگی! دیکھ بجھتے ہوئے لوگ ہم
بزمِ جاں میں چمکتے رہے رات بھر

۔۔۔۔ناناجی بنیادی طورپرایک محنتی، جفاکش اور سیلف میڈ انسان تھے۔ اہل حدیث مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔ عالم شباب میں ہی ناناجی نے اپنا مسلک تبدیل کرلیاتو ان کے دو بڑے بھائیوں نے ان پر شدید تشدد کیا۔ کئی دن تک بھوکاپیاسارکھا۔ تشدد کے نتیجہ میں جب ناناجی بے ہوش ہوجاتے تو ان کے منہ میں گندہ پانی ڈالاجاتا۔ بڑے بھائیوں کے اس ظلم اور تشدد کے ردِّ عمل کے طورپر ناناجی کا مزاج بھی متشددانہ ہوگیا۔ بعد میں انہو ں نے اپنی اولاد پرسختی کی۔ یوں تو ان کی ہر بیٹی، بیٹے نے حسبِ توفیق مارکھائی تاہم بیٹوں میں ماموں کوثر اور ماموں صادق اس مار کے زیادہ شکارہوئے۔ جبکہ بیٹیوں میں خالہ حبیبہ کو یہ سعادت نصیب ہوئی۔ خالہ حبیبہ کو اس لحاظ سے اپنے سارے بہن بھائیوں پر فوقیت حاصل ہے کہ باقی سب کی مار پٹائی ایک طرف اور اکیلی خالہ حبیبہ کی پٹائی ایک طرف۔۔۔ ایک دفعہ کسی معمولی سی بات پر ناناجی کو اتنا طیش آیاکہ خالہ حبیبہ کو باقاعدہ طورپر الٹالٹکادیااور دیر تک لٹکائے رکھا۔ خالہ حبیبہ پر جو تشدد ہوااس کا نفسیاتی اثر ان کے مزاج پرپڑا۔لہجے میں چڑچڑاہٹ، انتقام اور اذیت پسندی کے تمام اوصاف ان کی ذات میں جمع ہوگئے۔ چنانچہ اپنے پہلے بیٹے کو خالہ نے بچپن میں ہی مارمارکرنیم پاگل بنادیا۔ جب خالہ کو اس زیادتی کا احساس دلایاگیاتو پھر دوسرا انتہاپسندانہ ردِّ عمل سامنے آیا۔ باقی اولاد کو خالہ نے بے مہار چھوڑدیااور خود بعض رشتہ داروں پر اپنے مزاج کی کڑواہٹ نچھاورکرنے لگیں۔ان رشتہ داروں نے شکایت کی تو میں نے انہیں کہاکہ ان ساری زیادتیوں کو ناناجی کی ’’عطا‘‘ سمجھ کر برداشت کرلیں۔
۔۔۔۔نانی جی اور ناناجی کی عمروں میں خاصافرق تھا۔ نانی جی ساری زندگی ناناجی کے شدید دباؤ میں رہیں اور ناناجی کی سخت گیری نے انہیں مزید نرم بنادیا۔وہ اپنا غصہ کسی پر بھی نہ اتارسکیں، خود میں گھلتی رہیں اور ۵۳سال کی عمر میں ہی وفات پاگئیں۔ زندگی بھرتوناناجی کا تختہ مشق بنی رہیں۔ بیماری کے آخری ایام میں بھی ناناجی نے ا ن کا علاج کہیں اور کرانے سے روک دیااور اپنی حکمت کے مختلف نسخے اس وقت تک اُن پر آزماتے رہے جب تک وہ فوت نہ ہوگئیں۔ وفات سے چند گھنٹے پہلے نانی جی نے ناناجی سے فرمائش کی کہ ریوڑیاں کھانے کو جی کرتاہے۔ ناناجی خود عمدہ قسم کی ریوڑیاں لے کر آئے اور اپنے ہاتھوں سے نانی جی کو کھلاتے رہے۔ ناناجی جیسے سخت گیر شوہر کے ہاتھ سے اتنی محبت کے ساتھ ریوڑیاں کھانا نانی جی کے لئے ناقابل یقین خوشی تھی۔ اس واقعہ کے چند گھنٹے بعد نانی جی کو نیند آگئی۔ ممانی مجیدہ نے دیکھا کہ نانی جی بڑے سکون کی نیند سورہی ہیں۔ ان کا ماتھا ٹھنکا۔ آج کے دور کے انسان کو خواب میں بھی ایسا سکون کہاں نصیب ہوتاہے۔ ممانی مجیدہ نے امی جی کو بلایا اور پھر سارا گھر جمع ہوگیا۔ نانی جی فوت ہوچکی تھیں۔۔ میرا خیال ہے وہ ناناجی جیسے سخت گیر شوہر کی محبت سے حیرت زدہ ہوئیں اور پھر اسی حیرت اور بے انتہا خوشی کے نتیجہ میں فوت ہوگئیں۔
۔۔۔۔ناناجی کی سخت گیری کا ایک تاریخی واقعہ میرے ساتھ بھی رونما ہوا۔ میں دس گیارہ سال کاتھا۔ مجھے پندرہ سیر گندم آٹے کی چکی سے پسوانے کے لئے دی گئی۔ چکی والے نے گندم رکھ لی اور کہا کل آکر لے جانا۔ مجھ سے غلطی یہ ہوئی کہ گھر والوں کو بتائے بغیر ساتھ کی گراؤنڈ میں کھیلنے چلاگیا۔ گھر میں غالباًآٹاختم تھا اس لئے میرا انتظارہورہاتھا۔گھر آیاتو ڈانٹ پڑی لیکن میری وضاحت سے سب کی تسلّی ہوگئی۔ بدقسمتی سے اس وقت ناناجی موجود نہیں تھے رات کو جب ناناجی گھرآئے میں سوچکاتھا۔ صبح سویرے مجھے ناناجی نے جگایااور پوچھارات آٹاکیوں نہیں لائے؟ میں نے تسلّی بخش جواب دے دیا۔ اب انہوں نے پوچھا پسوائی کی چوّنی کہاں ہے؟۔ ایک تو نیندکا خمار، پھر صبح کا ملگجاسماں۔۔ جیب میں دیکھاتو چوّنی نہیں تھی۔ ناناجی کے ہاتھ میں بڑے سائز کا ایک درویشی عصارہتاتھا۔ بس اسی سے میری مرمت شروع کردی۔ اس دن ناناجی کے سونٹے سے مجھے اندازہ ہواکہ ’’موسوی عصا‘‘میں کتنی طاقت ہوتی ہوگی۔ امی جی میں تو ہمت نہیں تھی کہ مجھے چھڑاتیں۔ اتفاق سے ممانی مجیدہ نے میرے بستر کو چیک کیاتو وہاں سے چونی مل گئی۔ ممانی مجیدہ جیسی مظلوم عورت میں اس دن نجانے کہاں سے اتنی ہمت آگئی۔ میرے اور ناناجی کے بیچ آکر ان کاعصاپکڑلیا۔ یہ بہت بڑی جسارت تھی۔ چڑیا کا شہباز پر جھپٹناتھا۔ ’’یہ لیں اپنی چونی۔۔ اس کے بستر پر گری پڑی تھی۔۔ناحق بچے کی اتنی دھنائی کردی‘‘۔ اس دن ممانی مجیدہ کی ایسی محبت مجھ پر منکشف ہوئی جس کاعشر عشیر بھی پھر کسی ممانی کہ ہاں نظر نہیں آیا۔اس دن چڑیا، شہباز سے جیت گئی تھی۔ ناناجی ڈھیلے پڑگئے۔
۔۔۔۔ان واقعات سے یہ بھی نہ سمجھ لیں کہ ناناجی کوئی ’’ہلاکوخاں‘‘قسم کی چیز تھے۔ ان میں بلا کی ذہانت اورحسّ مزاح تھی۔ میرے باباجی اور اباجی کی ساری خوبیوں اور خامیوں کو اگر جمع کردیاجائے تو ناناجی بن جائیں گے۔ تنگ دستی کی حالت میں بھی بچوں کی بنیادی ضروریات کا پوراخیال رکھتے۔ گرمیوں میں شربت کی بوتلیں اور سردیوں میں وسیع پیمانے پر پنجیری تیارکراتے۔ دونوں موسموں میں یہ چیزیں بچوں کو باقاعدگی سے فراہم کی جاتیں۔ ناناجی کی اپنی خوراک بہت کم تھی لیکن شرط لگائی تو ایک دفعہ دس کلو گوشت کھاگئے اور ایک دفعہ گنے کے رس کی پوری بالٹی پی گئے۔ شادی بیاہ کی تقریبات پر ناناجی کے اندرکا ’’میاں سراجدین‘‘ باہر آجاتا۔ اپنی اولاد، دامادوں، پوتوں، پوتیوں، نواسوں نواسیوں، سب کے ساتھ مل کر بیٹھتے۔ سب سے گانے سنتے۔ خود بھی پنجابی کے لوک گیت بڑے اچھے ترنم کے ساتھ سناتے۔ جوں جوں بڑھاپا بڑھتاگیاناناجی کی کرختگی ختم ہوتی گئی اور حسِّ مزاح نمایاں ہوتی گئی۔ نانی جی کی وفات کے بعد ناناجی نے لگ بھگ ۲۰سال زندگی گزاری۔ دوسری شادی کا نام لیاجاتا تو پہلے ایک گالی دیتے پھر ہنس پڑتے۔ کہتے اگر میں اس عمر میں بھی شادی کرلوں تو تمہارا ایک اور ماموں پیداہوسکتاہے۔ اس پر میں شرارت سے کہتاکہ ناناجی یہ خطرہ مول لینے والی بات ہوگی۔ اگر نیاماموں،ماموں کوثر جیسا پیداہوگیا تو پھر کیا بنے گا؟اس پر مزید موج میں آجاتے۔۔ ناناجی نہانے سے سخت پرہیز کرتے تھے۔ صرف عید کے عید نہاتے۔ ایک دفعہ مجھے کہنے لگے نکلاچلاؤ میں نے وضو کرناہے۔ ناناجی نے صرف چادر اور واسکٹ نما پھتوئی پہنی ہوئی تھی۔ میں نے نلکاچلاناروک کرکہاناناجی !نہا کیوں نہیں لیتے؟۔۔ سراٹھاکر میری طرف مسکراکر دیکھا اور کہنے لگے:
’’بیٹے! جب سے تمہاری نانی مری ہے مجھے نہانے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔ چلو تم نلکا چلاؤ اور وضو کراؤ‘‘
۔۔۔۔ناناجی کی ذہانت نے انہیں اپنے زمانے کا جیمزبانڈ بنادیاتھا۔ اہلِ حدیث تھے تو اہلِ تشیع کی جاسوسی کے لئے کچھ عرصہ ذاکربنے رہے۔اہلِ حدیث مسلک ترک کیا تو پھر کچھ عرصہ کے لئے بنّوں میں ’’الّوؤں والاپِیر‘‘بنے رہے۔ قیام پاکستان کے بعد ناناجی اور نانی جی ہندوستان میں ہی رہے۔ وہاں ان پر پاکستان کا جاسوس ہونے کاشبہ کیاجاتارہا۔ رہی سہی کسر میں نے پوری کردی۔ میں غالباً پانچ سال کاتھا جب امی جی ہمیں لے کر ناناجی سے ملنے ہندوستان گئیں۔ وہاں میں نے پاکستانی طریق کارکے مطابق بہت سارے بچوں کو جمع کیا۔ انہیں ایک قطار میں کھڑاکیااور ہدایت کی کہ سب بچے اپنے سے اگلے بچے کی قمیص کا پیچھے کا حصہ اپنے ہاتھوں میں پکڑلیں۔ میں خود سب سے آگے تھا۔ یہ ایک طرح کی گاڑی بن گئی تھی جس کا انجن، ڈرائیور اور گارڈ بھی میں ہی تھا۔ میں نے بچوں کو چند ہدایات دیں اور پھر ہماری گاڑی چلنے لگی۔ یہ گاڑی چھک چھک کے نعرے لگانے کے بجائے ’’پاکستان زندہ باد۔۔ ہندوستان مردہ باد‘‘ کے نعرے لگارہی تھی۔ حالانکہ مجھے اس وقت ان لفظوں کے مفہوم کا بھی پتہ نہیں تھا۔ میری دانست میں یہ صرف ایک کھیل تھا۔ ناناجی کو علم ہواتو نہایت بدحواسی کے عالم میں مجھے گود میں اٹھاکر گھر لے گئے۔ امی جی کی گود میں پٹخ کر پتہ نہیں کیا کچھ کہا۔ البتہ اتنایادہے کہ ناناجی کو سچ مچ دو دن بخار چڑھارہا۔ یہ غالباً ۱۹۵۷ء کی بات ہے۔ اس کے بعد ناناجی بھی جلد پاکستان آگئے۔
۔۔۔۔ناناجی نے عملی زندگی میں ہر طرح کی محنت کی۔ مسجد کے موذن رہے۔ چارپائیاں بُننے کاکام بھی کیا۔ منیاری کا کام بھی کیا(منیاری سے مراد صرف گوٹہ کناری کی فروخت سمجھیں) حکمت کا کام بھی کرتے رہے۔ یہ کام عمر کے آخری حصے تک کرتے رہے اور اس سے انہیں اتنی آمدنی ہوجاتی تھی کہ گویا کسی کے محتاج نہیں تھے۔ ناناجی کے بعض نسخے میں نے ان سے ان کی زندگی میں ہی لئے تھے۔ بعض حسّاس قسم کے نسخے ان کی وفات کے بعد ان کی کاپی سے نوٹ کئے ۔ انہوں نے اپنی دوائیوں کے نام بھی خود ہی بنارکھے تھے مثلاً قبض کشاگولیوں کا نام تھا ’’پیٹ کا جھاڑو‘‘۔ اسی طرح مردانہ کمزوری کے ایک نسخے کا نام ’’ایٹم بم‘‘تھااور دوسرے نسخے کا نام تھا’’ہائیڈروجن بم۔۔ عرف مردہ کوزندہ کرنا‘‘۔۔ امرت دھارا ایک ایسی دواہے جو نزلہ، زکام، ہیضہ، قے، سردرد، دانت کے درد، کان کے درد، غرض بیسیوں بیماریوں کا فوری علاج ہے۔ کسی ہنگامی صورتحال میں پریشانی سے بچنے کے لئے یہ دواہرگھر میں ہونی چاہیے۔ آجکلVicksاوربام کی صورت میں بھی امرت دھارا کو محدود استعمال کی چیز بنایاجارہاہے۔ اصل امرت دھارا گھر پر ہی پچیس تیس روپے میں تیارکیاجاسکتاہے۔ افادۂ عام کے لئے یہ نسخہ پوری گارنٹی کے ساتھ پیش ہے۔ست اجوائن، ست سنڈھ، ست دارچینی، ست الائچی، ست پودینہ۔۔ یہ پانچوں ست ایک ایک تولہ لے کر بوتل میں ڈالتے جائیں۔ ان کے ساتھ پانچ تولہ مشک کافور ملادیں۔ ساری اشیاباہم ملنے پر خود بخود سیّال صورت اختیارکرلیں گی۔ یہ نسخہ میراآزمودہ ہے۔۔۔۔۔ایٹم بم کا نسخہ بغیر گارنٹی کے پیش ہے۔مستگی رومی ایک تولہ، دودھ بڑایک تولہ، شنگرف رومی ایک ماشہ، انڈے کی زردی ایک عدد، افیون تین ماشے، سم الفار ایک ماشہ،تمام چیزوں کو کونڈی میں ڈال کر خوب رگڑیں۔ چنے کے برابر گولی بنائیں۔ ایک گولی کے ساتھ ایک چھٹانک دیسی گھی یا آدھ کلو دودھ لیں۔ فراغت کے لئے نمک چاٹناضروری ہے۔ اس نسخے کو آزمانے والے اپنی ذمہ داری پر آزمائیں البتہ گولیاں مفید ثابت ہوں تو مجھے بھی پندرہ بیس گولیاں ضرور بھیج دیں۔
۔۔۔۔ناناجی سے میں نے ایک دفعہ کہاتھاکہ دیسی طریق علاج کوہمارے پرانے حکماء نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایاہے کیونکہ انہوں نے بیشتر نسخے اپنے سینوں میں بندرکھے اور اپنے ساتھ ہی قبروں میں لے گئے۔ ناناجی نے شکستہ دلی سے میرے موقف کو مان لیاتھا۔
ناناجی پران کے جو بھائی اورعزیز تشدد کرتے تھے، ساتھ یہ بھی کہتے تھے کہ اس بدبخت کو مارکر اس کا بیج ہی ختم کردو۔قدرت خداکی ان لوگوں کی اپنی نسلیں ختم ہوگئیں۔ ناناجی نے اپنے پوتے، پوتیاں، نواسے، نواسیاں ہی نہیں ان کی اولادیں بھی دیکھیں۔ رضوانہ کو شروع میں ہم روزی کہتے تھے ناناجی نے ایک سال کی اپنی پڑنواسی کو گود میں لیا۔ اتفاق سے بچی کو فراک بھی گلابی پہنارکھی تھی۔ ناناجی نے بچی کا نام پوچھا۔ روزی کا لفظ سن کر مسکرائے اور کہنے لگے یہ تو ’’مس گلابو‘‘ ہے۔ گویا روزی کا پنجابی میں عمدہ ترجمہ کردیا۔ ناناجی سے کبھی ہم پوچھتے کہ ناناجی آپ کہاں تک پڑھے ہیں؟ پنجابی لہجے میں اس طرح کہتے ’’اینویں پاس ہوں‘‘جیسے کہہ رہے ہوں ’’ایم۔اے پاس ہوں‘‘۔
۔۔۔۔نانی جی کی وفات کے بعد تقریباً بیس سال ناناجی نے اکلاپے کی زندگی بسر کی۔ بیٹے، بیٹیاں اور ان کی اولادیں ہونے کے باوجود شریک زندگی کے بغیر بڑھاپابسر کرنا خاصا کٹھن کام ہے۔ آخر آخر تک توناناجی اتنے نرم مزاج اور گداز طبیعت کے مالک ہوگئے کہ ان کے رویے پر حیرت ہوتی تھی اپنی زندگی کے ۸۶سال پورے کرچکے تھے۔ بڑھاپے کی کمزوری آڑے آرہی تھی۔ ایک دن ناناجی نے بڑی بہوسے کہا: مجھے ریوڑیاں منگادو، سارے عزیز چونک اٹھے۔ نانی جی نے بھی وفات سے پہلے ریوڑیاں کھانے کی خواہش کی تھی۔ تو کیا ناناجی بھی۔۔؟ ۔۔۔سب کے دل میں خدشات گھر کررہے تھے۔
۔۔۔۔ریوڑیاں منگائی گئیں۔ ناناجی کمزوری کے باوجودمزے لے لے کر ریوڑیاں کھاتے رہے اور پھر سوگئے۔
۔۔۔۔ہمارے اکثر خدشات ہمارے وہم کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ ناناجی کے بارے میں ہمارے خدشات بھی دراصل ہمارے وہم کا نتیجہ تھے۔
اس کے باوجود خدشات درست نکلے،وہم سچ ثابت ہوا۔
ناناجی فوت ہوچکے تھے۔
کبھی کبھی ہمارے وہم کتنے سچ ثابت ہوتے ہیں
***

مصری کی مٹھاس اور کالی مرچ کا ذائقہ

مصری کی مٹھاس اور کالی مرچ کا ذائقہ
تایاجی

نظر سے دور ہے لیکن نظر میں ہے پھر بھی
کہ عکس اپنے مرے  آئنوں   میں  چھوڑ گیا

اباجی کے بھائی۔۔ جنہیں ہم سب باباجی کہتے تھے، اباجی سے عمر میں بڑے تھے۔ اباجی نے زندگی ایک مقالہ نگار کی طرح بسر کی تو باباجی نے انشائیہ نگار کی طرح زندگی گزاری۔ وہ صراط مستقیم کی صداقت کے قائل تھے مگر ٹیڑھی میڑھی اور اونچی نیچی پگڈنڈیوں پر چلنا اور ارد گرد بکھرے ہوئے رنگوں اور خوشبوؤں سے لطف اٹھانا انہیں پسندتھا۔ باباجی نے بھرپور جوانی بسرکی۔ اباجی او رباباجی دونوں ایک دوسرے کے نیگیٹو تھے۔ اباجی کے مزاج کے برعکس باباجی خواتین کی محفلوں میں بیٹھ کر ہمیشہ خوش ہوتے۔ نماز کے قریب نہیں پھٹکتے تھے۔ کبھی زورلگاکر فجر کی نماز پڑھادی تو سارادن بہانے بنابناکرلڑتے۔ جمعہ کا دن آتا تو صبح سویرے ہی ان کی طبیعت خراب ہوجاتی اور عید کے موقعوں پر تو احتیاطاً ایک دن پہلے ہی بیمارہوجاتے۔ روزوں کا معاملہ بھی کچھ ایساہی تھا۔ ایک دفعہ میں نے انہیں کہا: ’’باباجی تین دن بعد رمضان شریف کے روزے شروع ہورہے ہیں ‘‘باباجی میری شرارت کو بھانپ گئے۔پورے اعتماد کے ساتھ بولے: ’’ہاں بھئی۔۔ اللہ کے نیک بندے روزے رکھیں گے۔ ہم تو بڑے گنہگار ہیں‘‘۔۔ ایک آدھ دفعہ انہیں مجبورکرکے روزہ رکھوادیاگیاتو عصرکے وقت ہی افطاری کے سارے لوازمات سجاکر بیٹھ گئے۔ کچھ دیر بعدبولے: ’’آج دن کی رفتار خاصی سست ہے‘‘۔ کسی نے مذاقاً کہہ دیا: ’’آج دن کو بھی پتہ ہے کہ باباجی نے روزہ رکھاہواہے اسی لئے سلوموشن میں چل رہاہے‘‘۔ باباجی کاپارہ چڑھ گیا۔ مؤذن کے بارے میں گرم ہونے لگ گئے وہ بھی کہیں سوگیاہے یا مرگیاہے۔ دراصل روزے کے معاملے میں باباجی غالب کے ہم خیال تھے ؂
روزہ مرا ایمان  ہے  غالبؔ لیکن
خس خانہ و برفاب کہاں سے لاؤں
۔۔۔۔باباجی کے ’’خس خانہ وبرفاب‘‘ سے مراد ’’روزہ رکھنے کا حوصلہ‘‘ہے۔ اس کے باوجود باباجی خدا کی بے پایاں رحمت اور اپنے آقا حضرت محمدﷺکی شفاعت پر کامل ایمان رکھتے تھے۔ سیدھے سادے مسلمان تھے۔ کبھی کبھی موج میں ہوتے تو کہتے: ہم خدا کی اپنی بنائی ہوئی مخلوق ہیں۔ ہماری ساری غلطیاں اور گناہ وہ بخش دے گا۔ ویسے بھی کون ہے جو محض اپنی نیکیوں اور عبادتوں کے بل پر اپنی بخشش ہو جانے کادعویٰ کرتاہے۔ قوالی سننے کے رسیاتھے۔ عزیزمیاں اور صابری برادر ان کی قوالیاں سن کر باقاعدہ جھومنے لگتے۔
۔۔۔۔آزادہ روی باباجی کے مزاج میں بچپن سے ہی تھی۔ داداجی نے انہیں سکول میں داخل کرایا۔ پہلے دن ہی قاعدہ اور تختی کنویں میں پھینک آئے۔ داداجی نے تین دفعہ قاعدہ لے کر دیا۔۔ بابا جی تینوں دفعہ کنویں میں پھینک آئے۔ آخر داداجی نے حقائق کو تسلیم کرلیااور باباجی کو پڑھائی میں الجھانے کی کوشش ترک کردی۔
۔۔۔۔باباجی ہمارے اباجی سے عمر میں پندرہ سال بڑے تھے۔ اباجی جب پرائمری سکول میں پڑھنے جاتے تو واپسی پر ایک درخت کے نیچے لیٹ کر سوجاتے۔ باباجی باقاعدگی سے اباجی کو گود میں اٹھاکر گھر لاتے۔ بڑے بھائی ہونے کے ناطے باباجی احترام کے لائق تھے مگر ہم نے جب سے ہوش سنبھالایہی دیکھا کہ باباجی ہمارے اباجی کا ایسے احترام کرتے جیسے سعادت مند چھوٹے بھائی اپنے بڑے بھائی کا احترام کرتے ہیں۔ اباجی جب پینتالیس سال کے تھے باباجی ساٹھ سال کے تھے۔ اباجی پچاس سال کے ہوئے باباجی ساٹھ سال کے رہے۔ اباجی چونسٹھ سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ باباجی پھر بھی ساٹھ سال سے آگے بڑھنے کو تیارنہ تھے۔ ہم نے منت سماجت کی تو بمشکل پینسٹھ سال کے ہوئے اور پھر جب بیاسی سال کی عمر میں فوت ہوئے تب بھی پینسٹھ سال کے تھے۔دراصل باباجی کو گزرتی ہوئی عمر کو روکنے کاہنر آتاتھا۔ مرتے دم تک باباجی نے ورزش کو ہی اپنی عبادت بنائے رکھا اور اس ورزش کی برکت سے بیاسی سال کی عمر تک بالکل ہشاش بشاش رہے۔
۔۔۔۔باباجی کو پہلوانی کاشوق تھا، خانپور کے علاقہ میں اپنے زمانے میں اچھے پہلوان مانے جاتے تھے۔ عمرڈھل گئی تو انہوں نے شاگردپالنے شروع کردیئے۔ کشتی کے داؤ پیچ سکھانے میں باباجی ماہر تھے۔’’استاد جی ‘‘کہلواکر خوش ہوتے۔جہاں بھی رہے اپنے شاگردوں کا حلقہ پیدا کیا۔جب وہ انہیں ’’استادجی‘‘ کہہ کر پکارتے تو بے حد خوش ہوتے۔ ہم پانچ بھائی ہیں اور پانچوں فری اسٹائل ریسلنگ دیکھنے کے شوقین ۔ ہم بھائی جب بھی اکٹھے ہوتے تھے ہماری اہم ترین مصروفیت ریسلنگ کی تازہ ترین فلمیں دیکھنا اور پرانی کشتیوں پر تبصرہ کرناہوتی تھی۔ ہم ہوگن، اینڈ ردی جائنٹ، میچومین، کمالا، رِک فلئیر، روڈی پائپر جیسے پہلوانوں کی باتیں کرتے توباباجی کو شدید غصہ آتا۔ فری اسٹائل کشتی کے فن کو صلواتیں سناتے اور پھر دیسی کشتی کے محاسن اور فضائل پر طویل لیکچر دے ڈالتے۔ باباجی بلب کے مقابلے میں تیل کے چراغ، فرج کے مقابلے میں گھڑے اور نئے دور کے مقابلے میں پرانی روایات کو ترجیح دیتے تھے۔ انہوں نے ہزار بحثوں کے بعد بھی زمانے کے ارتقاء کا اعتراف کرنے سے ہمیشہ انکارکیا۔
۔۔۔۔اباجی اور باباجی دو بھائی تھے۔ اس خاندان میں پچھلی کئی پشتوں سے یہ ہورہاتھاکہ دو بیٹے پیداہوتے، ایک اولاد سے محروم رہتا اور ایک کے ہاں پھر دو بیٹے ہوجاتے۔۔ چنانچہ باباجی بھی اولاد کی نعمت سے محروم رہے لیکن ان کی وفات کے ساتھ ہی ہمارے خاندان کی اس نسل درنسل روایت کا بھی خاتمہ ہوگیا۔ شروع شروع میں باباجی کو اولاد سے محرومی کا قلق رہاپھر پتہ نہیں انہوں نے قسمت کے لکھے سے سمجھوتہ کرلیایا انہیں اتنی بڑی کائنات میں انسان کی بے وقعتی کا احساس ہوگیاکیونکہ پھر انہوں نے زندگی سے مسرت کشید کرنے کا عمل تیزکردیا۔
۔۔۔۔باباجی کی آنکھ میں موتیا اترآیا۔ آپریشن ہوا، کامیاب رہامگر نظر مزید کمزور ہوگئی۔انہوں نے ٹی وی دیکھنا چھوڑدیا۔ ٹی وی دیکھنا چھوڑکر بھی باباجی کے ’’حُسنِ نظر‘‘ میں کمی نہیں آئی۔ جیسے ہی ملکۂ ترنم نور جہاں کا کوئی نغمہ سنائی دیتا، نغمہ سننے اور ملکہ ترنم کی زیارت کے لئے ٹی وی والے کمرے میں آجاتے۔ نورجہاں کا نغمہ بڑی محویت سے سنتے بلکہ بڑی محویت سے دیکھتے۔ ایک موقعہ پرتو عالمِ محویت میں ان کی عینک ہی گرگئی تھی۔۔ پھر یوں ہواکہ مسرت نذیر یکایک ٹی وی پر نمودا رہوگئی۔ بچوں نے اپنی عمر سے آگے بڑھ کر جوان ہونا شروع کردیا اور بوڑھوں نے ریورس گیئر میں جوان ہوناشروع کردیا۔ باباجی بھی مزید جوان ہوگئے۔ مسرت نذیر کے گائیکی کے انداز نے باباجی کی توجہ کھینچ لی تھی۔ اس کے باوجود باباجی نے ملکۂ ترنم نورجہاں سے تعلق خاطر کو ٹوٹنے نہیں دیا۔ البتہ یہ تعلق کمزور ضرور پڑگیا۔ مثلاً ایک بقرعید پر ملکۂ ترنم کا نغمہ دکھایاگیا۔ باباجی محبت کا بھرم رکھنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے مگرٹی وی والے کمرے تک پہنچتے پہنچتے اتنی دیر ہوگئی کہ گانا ختم ہوگیااورباباجی الٹے پاؤں یوں لوٹ گئے جیسے ملکہ ترنم سے کہہ رہے ہوں ’’اچھا اگلی بقر عید پر سہی!‘‘۔
۔۔۔۔ہمارے بچپن میں باباجی ایک دفعہ مجھے اور آپی کو اپنے اکھاڑے میں لے گئے۔ ہم دوسری کشتیاں دیکھتے رہے لیکن جیسے ہی باباجی اکھاڑے میں اترے اور اپنے حریف سے پنجہ آزمائی کرنے لگے ہم نے یہ سمجھا کہ دوسرا آدمی ہمارے باباجی کومارے گا۔ چنانچہ ہم نے رونا اور چیخنا شروع کردیا۔ ہماری چیخ و پکار سے مجبورہوکر باباجی کو کشتی ادھوری چھوڑنا پڑی۔آکر ہمیں تسلّی دیتے رہے کہ میں اپنے حریف کو پچھاڑدوں گامگر ہم نے انہیں کشتی نہیں لڑنے دی۔
۔۔۔۔باباجی نے دوشادیاں کیں مگر دونوں ناکام ہوئیں۔ بواحیات خاتوں بتایاکرتی تھیں کہ پہلی بیوی کے ساتھ باباجی زیادتیاں کرتے تھے۔ باباجی اس الزام پر ہمیشہ برہم ہوجاتے۔ دوسری بیوی کا حال ہم نے خود دیکھا۔ اس نے ہمیشہ باباجی کے ساتھ زیادتی کی۔ باباجی جہاں تک برداشت کرسکتے تھے، کرتے رہے۔ جب قوت برداشت جواب دے گئی تو علیٰحدگی ہوگئی۔ ممکن ہے اولاد ہوتی تو باباجی کی قوّتِ برداشت بڑھ جاتی اور دونوں میں علیحدگی کی نوبت نہ آتی۔ باباجی کی بیویوں نے باباجی کا ساتھ نہیں دیاتھا یا باباجی اپنے ساتھ نہیں نبھاپائے، یہ خداہی بہتر جانتاہے۔ مگریہ ایک حقیقت ہے کہ باباجی نے اباجی کا زندگی بھر ساتھ دیا۔۔ بُرے وقتوں میں کام آئے، بھلے وقتوں میں کام آئے۔ ان کی جائیداد بے شک ان کی موت کے بعد ہمارے حصے میں ہی آتی مگر اپنی زندگی میں ہی اپنی جائیدادبھائی، بھتیجوں کے سپرد کردینا بڑے حوصلے اور دل جگرے کاکام ہے۔ باباجی نے یہ کام کیا۔ ہمارے ساتھ نیکی کی احسان کیا۔ ا س کا اجرانہیں خدا سے ملے گا۔
۔۔۔۔میرے بچوں سے باباجی بہت مانوس تھے۔ رضوانہ، زلفی، شازی، ٹیپو، مانوپانچوں سے انہیں محبت تھی۔ باباجی کالی مرچ، سونف، مصری، بادام اور الائچی وغیرہ کا وافر اسٹاک اپنے پاس رکھتے اور انہیں عام طورپر استعمال کرتے رہتے۔ بچوں کو مصری اور بادام دیاکرتے تھے۔ محلے کے بچوں میں بھی مصری بانٹاکرتے تھے۔ چنانچہ محلے میں ’’مصری والے بابا‘‘ کے نام سے مشہور ہوگئے۔
۔۔۔۔باباجی صاف دل اور سادہ مزاج انسان تھے۔ انہوں نے کبھی خود کو نیک اور متقی باور کرانے کی کوشش نہیں کی۔غصہ آتا تو پینے کی کوشش نہیں کرتے تھے، برملا اظہار کردیتے تھے۔ چنانچہ آخری پانچ برسوں میں مہینے میں ایک آدھ بار جھگڑا ضرور کرلیتے۔ دراصل اپنی صاف دلی اور سادہ مزاجی کے باعث ’’لائی لگ‘‘ تھے۔ جھگڑا اُس وقت کرتے جب بعض رشتہ دار انہیں بھڑکاتے۔ جب جھگڑاکرچکتے پھر خود ہی بتادیتے کہ مجھے فلاں فلاں نے اس طرح غصّہ دلایاتھا۔ چنانچہ ہم کسی عزیز سے تلخی پیدا کئے بغیر فساد پھیلانے والے رشتہ داروں سے واقف ہوگئے اور خود ہی محتاط رہنے لگے، مگر باباجی کا کمال یہ تھاکہ کچھ عرصہ ٹھنڈا رہنے کے بعد پھر انہیں رشتہ داروں کے ہاں آنے جانے لگتے۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھے
۔۔۔۔باباجی کو مٹی سے بڑی محبت تھی۔ شروع شروع میں گھر کے کچے صحن میں آلتی پالتی مارکے بیٹھے رہتے۔ پھر گھر کے باہر بھی اسی طرح بیٹھنے لگے، بلکہ بعض دفعہ خاک پر نیم دراز ہوجاتے۔ میں نے ان سے ایک دوبارمؤدبانہ درخواست کی کہ اس طرح سرِراہ نہ بیٹھاکریں۔ ان کا جواب تھا مجھے مٹی سے محبت ہے، اس کی خوشبو اچھی لگتی ہے۔۔ میں نے گذارش کی کہ صحن کی مٹی کی خوشبو سے ہی محبت پوری کرلیجئے مگر وہ توشاید ’’تمنا‘‘ کادوسرا قدم ڈھونڈنے کے چکر میں تھے۔ آخر میں نے انہیں اپنی اور ان کی قریشیت کا واسطہ دے کرکہا آپ جس طرح سرراہ مٹی سے اظہار محبت فرمارہے ہیں اس میں محبت کی بھی رسوائی ہے اور مجھے خدشہ ہے کہیں راہ گیر آپ کے سامنے پیسے نہ ڈالنے شروع کردیں۔۔ میرا تِیر ٹھیک نشانے پر بیٹھااور باباجی لاحول ولاقوۃ پڑھتے ہوئے ایک دم چھلانگ مارکر کھڑے ہوگئے۔ اس کے بعد باباجی گھر کے صحن میں ہی مٹی سے اظہار محبت کرتے رہے۔
۔۔۔۔ دراصل باباجی کے اندر ایک بڑا مضبوط دراوڑ موجود تھا۔ مٹی سے جڑا ہوا، ماضی اور اس کی روایات سے چمٹاہوا۔ ہم لوگ باباجی کے لئے آریائی ثابت ہوئے کہ انہیں خانپور سے دھکیلتے ہوئے بالائی پنجاب تک لے آئے لیکن باباجی کے من میں جودنیا آباد تھی وہ ویسے ہی آباد رہی۔ خانپور چھوڑنے کے بعد وہ کیسٹ پلیئر پر اکثر یہ گانا سناکرتے ’’چل اُڑجارے پنچھی کہ اب یہ د یس ہوابیگانہ‘‘۔ گانا سن کر اداس ہوجاتے۔ مگر کیسٹ پلیئر کے مقابلے میں گراموفون مشین کی آواز انہیں زیادہ فطری لگتی رہی۔ وہ جدید ٹیکنالوجی سے کبھی مرعوب نہ ہوئے۔ حالانکہ گراموفون مشین اسی جدید ٹیکنالوجی کی ابتدائی صورت تھی، مگر میرا خیال ہے باباجی اس معاملے کو کسی ا ور زاویے سے دیکھتے اور سوچتے تھے۔۔ کبھی کبھی ایسے لگتاہے جیسے باباجی نے جو دنیا اپنے من میں آباد کررکھی تھی وہ دنیا تو میرے من میں بھی آباد ہے۔ اور اب تو باباجی کی بہت سی ایسی باتیں بامعنی لگنے لگی ہیں جو ان کی زندگی میں بے معنی لگتی تھیں۔
۔۔۔۔ باباجی ایک اچھے دراوڑ کی طرح مٹی سے محبت بھی کرتے تھے اور موت سے خائف بھی رہتے تھے۔ موت کاکوئی قصّہ کبھی ہم لے بیٹھتے تو باباجی ناراض ہوجاتے اور کہتے موضوع تبدیل کرو۔ ہم انہیں تنگ کرنے کے لئے کہتے باباجی جب ہر کسی نے ایک نہ ایک دن مرناہے تو پھر موت سے ڈرکیسا۔۔ پہلے باباجی کچھ گھبراتے پھر جی کڑاکرکے کہتے میں پہلوان ہوں آسانی سے جان نہیں دوں گا۔۔ لگتاہے فرشتۂ اجل کو بھی باباجی کے خوف پر رحم آگیا ہوگا کیونکہ موت ان کی طرف ایسے آئی کہ نہ انہیں پتہ چل سکا،نہ ہمیں پتہ چل سکا۔ بازار سے گھوم پھر کر، اپنے شاگردوں سے مل کر آئے، گھر کے صحن سے برآمدے تک پہنچے اور چلتے چلتے ہی جان دیدی۔۔ میرے داداجی کے بڑے بیٹے قریشی غلام حسین۔۔میرے اباجی کے بڑے بھائی،ہم سب کے تایاجی فوت ہوگئے۔ مصری کی مٹھاس اور کالی مرچ کا ذائقہ دونوں ایک ساتھ کھوگئے۔
باباجی کی زندگی میں ہی میراایک افسانہ ’’دھندکاسفر‘‘۔ نگارپاکستان کراچی میں چھپاتھا۔ اس افسانے میں باباجی اور میرے تعلق سے ایک واقعہ بھی درج تھاجو افسانہ نہیں حقیقت ہے۔
وہ حقیقت اپنے افسانے سے نقل کرتاہوں۔
۔۔۔۔(آپی اور میں)’’جب ہم دونوں چار سال اور تین سال کے تھے، تایاجی ہمارے ہاں آئے تھے، پھر تھوڑی دیر کے لئے کہیں باہر چلے گئے تو آپی نے اور میں نے مشترکہ طورپرسوچاکہ ہمارے تایاجی گم ہوگئے ہیں اور پھر صلاح کی کہ ہم دونوں چل کر انہیں ڈھونڈتے ہیں۔ ہم بڑی خاموشی سے گھر سے نکل آئے۔ قریبی بازار تک آئے پھر پتہ نہیں کیا ہوا، راستے گم ہونے لگے اور تایاجی کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے ہم خود گھر کا راستہ بھول گئے۔ نہ تایاجی ملے ،نہ گھر کاراستہ۔ سڑک کے کنارے کھڑے ہوکر ہم دونوں نے رونا شروع کردیا۔ کسی شریف دوکاندار نے ہمیں اپنی دوکان پر بٹھالیااور ڈھیر ساری مٹھائی بھی ہمارے سامنے رکھ دی۔ ہم نے مٹھائی کھانے کے ساتھ ساتھ رونے کا عمل بھی جاری رکھا تاوقتیکہ تایاجی اور اباجی ہمیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہاں تک نہ آگئے۔ تب ہم مارے خوشی کے باقی مٹھائی اٹھانا بھی بھول گئے‘‘
۔۔۔۔اب جبکہ اباجی اور باباجی دونوں اس جہان میں نہیں رہے تو مجھے خود احتیاط کرنا پڑتی ہے کہ گھر سے زیادہ دور نہ نکل جاؤں اور گھرکاراستہ نہ بھول جاؤں کیونکہ اب اباجی اور باباجی میں سے کوئی بھی مجھے ڈھونڈنے نہیں آئے گا۔ اب اچھے دوکاندار بھی بہت کم ہیں اور اغواکرنے والے زیادہ۔ اسی لئے مجھے ہر قدم سوچ سوچ کر اور پھونک پھونک کراٹھاناہے۔
۔۔۔۔ مجھے یقین ہے مٹی سے محبت رکھنے والے باباجی، جو موت سے بھی ڈرتے تھے، اب موت کے بعد کسی خوف کے بغیر مٹی سے ہم آغوش ہوکر اپنی محبت کو کمال تک پہنچارہے ہوں گے۔
***

رانجھے کے ماموں

رانجھے کے ماموں
ماموں ناصر

ہراسکتانہ تھا ویسے تو کوئی بھی مگر مجھ کو
کسی  کی  کامیابی  کے  لئے  ناکام  ہونا  تھا

۔۔۔۔میرے والد سرائیکی تھے سو میں نسلاً سرائیکی ہوں۔ میری والدہ پنجابی تھیں اس لحاظ سے سرائیکی النسل ہونے کے باوجود میری مادری زبان پنجابی ہے۔ پنجابی زبان میں ماں کا نام دوبارلینے سے ماموں کارشتہ بنتاہے یعنی ’’ماں ماں‘‘(لکھنے میں تو شاید ماماں سے ہی کام چل جاتاہے لیکن الفاظ کی ادائیگی میں ماں ماں کہنا ہوتاہے) سو ماموں کا رشتہ بڑا اہم اور معتبر رشتہ ہے۔ میرے پانچ ماموں ہیں۔ عمروں کے لحاظ سے ان کی ترتیب یوں ہے: پہلا نمبرعطاء اللہ کلیم صاحب۔ دوسرا نمبر پروفیسر ناصر احمد صاحب۔ تیسرا نمبر حمید اللہ کوثر باجوہ صاحب۔ چوتھا نمبر ڈاکٹر سمیع اللہ ریاض صاحب۔ پانچواں نمبر حبیب اللہ صادق صاحب۔ اگر مجھ سے میری ذاتی پسند کے بارے میں پوچھاجائے تو پھر میرے ماموؤں کی ترتیب یوں ہوگی: پہلا نمبر ماموں ناصر۔ دوسرا نمبر ماموں ناصر۔ تیسرا نمبر ماموں ناصر۔ چوتھانمبرماموں سمیع اور پانچواں نمبر ماموں صادق۔
۔ ۔یہ قطعاً میری ذاتی پسندکی ترتیب ہے جس سے اختلاف کا ہر عزیز کو حق حاصل ہے۔ اس ترتیب سے یہ ظاہرہورہاہے کہ ماموں ناصر میرے لئے ایسے ماموں ہیں جو ماں کا نام دوبار لینے سے نہیں بلکہ چھ بار لینے سے پورے ہوتے ہیں اس سے میرے لئے ان کی محبت کااندازہ کیاجاسکتاہے۔ لیکن ماموں ناصر کی محبت بڑی ظالم شے ہے اس کی وضاحت ذراآگے چل کرہوگی۔
۔۔۔۔ماموں ناصر کے ساتھ میری محبت دراصل ’’بچپن کی محبت‘‘ ہے میں نے ابتدائی عمر میں ہی دیکھاکہ ماموں ناصر کو اپنی بہنوں میں میری امی جی سے خاص محبت تھی۔ اتنی خاص کہ دوسری بہنوں کے لئے بھی بعض اوقات غصے کا موجب بن جاتی۔ بے جی(نانی جان) بھی کبھی کبھی جھلاجاتیں۔ امی جی کے تعلق سے یہ محبت اباجی تک بھی پہنچی ماموں ناصر اباجی کا بے حد احترام کرتے۔ رحیم یارخان میں تنگی کے دنوں میں جب بھی ماموں ناصر سے قرض مانگا انہوں نے فوراً فراہم کیا، چاہے خود بھی کہیں سے قرض ہی کیوں نہ لیاہو لیکن اباجی کے کام میں تاخیر نہیں ہونے دی۔ ۔ ایک موقعہ پر بہت سارے عزیز و اقارب جمع تھے۔ اباجی اپنے جوتوں کی مرمت اور پالش کرانے کے لئے کسی بچے کو ڈھونڈ رہے تھے۔ جب تک کوئی بچہ ملتا ماموں ناصر بتائے بنا خود اباجی کے جوتے لے کر چلے گئے اور مرمت کراکے، پالش کراکے لے آئے۔۔ امی جی اور اباجی کے ساتھ ماموں ناصر کے ایسے محبتی رویّے کی متعدد مثالیں ہیں۔ اسی وجہ سے بچپن میں ہی مجھے ماموں ناصر سے محبت ہوگئی۔مبارکہ کے ساتھ میری شادی ہونے میں میری پسند کے علاوہ امی جی اور ماموں ناصر کی گہری محبت کا جذبہ بھی کارفرماتھا۔
۔۔۔۔ماموں ناصر بنیادی طورپر سیلف میڈ انسان ہیں کم عمری میں میٹرک کا امتحان پاس کرتے ہی انہوں نے سارے خاندان کا بوجھ اٹھانے کے لئے نوکری کرلی۔ نوکری کے ساتھ پرائیویٹ طورپر تعلیم کے حصول کا سلسلہ جاری رکھا۔ ریلوے کی ملازمت سے لے کر انگلش کی پروفیسری تک انہوں نے ان تھک محنت کی۔ خاندان کے تقریباً ہر فرد پر احسانات کئے اور تقریباً ہر فرد سے ان احسانات کی مناسب سزا پائی ۔ ماموں ناصر کی ایک خوبی یہ ہے کہ اپنوں میں سے جو انہیں زیادہ عزیز ہوتے ہیں ان کی سفارش پر دوسروں کے مشکل سے مشکل کام کروادیتے ہیں مگر خود اس عزیز کا کام کبھی نہیں کرائیں گے جس سے انہیں محبت ہوگی۔ اس لئے میں نے کہا تھاکہ ماموں ناصر کی محبت بڑی ظالم شے ہے اور اس محبت کے بڑے شکاروں میں سے ایک میں ہوں۔
۔۔۔۔ماموں جی کی پہلی شادی ماں کی اطاعت میں ہوئی اس خاندانی فیصلے کی قیمت ممانی مجیدہ نے اداکی۔ سرخ و سفید رنگت والی ممانی مجیدہ سے لے کر ٹی بی کا شکار ممانی مجیدہ تک دکھوں کاایک سفر تھا۔ ممانی مجیدہ نے ۳۲برس کی عمر میں یہ سفر طے کرلیااور اپنی یادگار ایک بیٹا اور تین بیٹیاں چھوڑگئیں۔
۔۔۔۔میری شادی اپریل ۱۹۷۱ء میں ہوئی اسی سال میں اور مبارکہ گرمیوں کے دنوں میں ماموں ناصر کے پاس مانسہرہ گئے۔ وہاں ایک دن ریڈیو پر مہندرکپور کا گیت نشر ہوا:
تم اگر ساتھ دینے کا وعدہ کرو میں یونہی مست نغمے لٹاتارہوں
۔۔۔۔ میں نے دیکھا ماموں ناصر عالم جذب میں پہنچے ہوئے تھے۔ ممانی مجیدہ کو فوت ہوئے چار برس ہوچکے تھے اور ان کی زندگی کے آخری تین برس بھی سنگین بیماری کے باعث شجر ممنوعہ کے طورپر بسر ہوئے تھے۔ گویا سات برس کا وقفہ تھا۔ بیٹیوں کی شادی کے بعد جیسے ہی انہیں سبکساری کا احساس ہوا زندگی پھر سے انگڑائیاں لینے لگی۔ مہندرکپور گارہاتھا:
میں اکیلا بہت دیر چلتا رہا
اب سفر زندگانی کا کٹتا نہیں
جب تلک کوئی رنگیں سہارا نہ ہو
وقت کافر جوانی کا کٹتا نہیں
۔۔۔۔میں نے اس دن مہندرکپور کے گیت کالفظ لفظ ماموں ناصر کے روم روم میں اترتے دیکھا۔
خانپور واپس آکر امی جی کو اپنے ’’مشاہدہ‘‘ کا حال سنایا۔ امی جی نے فوراً رشتوں کی تلاش شروع کردی۔ دوسال کی دوڑدھوپ کے بعد مطلوبہ رشتہ ملا۔ چندے آفتاب چندے ماہتاب۔۔ ممانی آصفہ کو ملتان سے بیاہ کر خانپور لایاگیا۔ دوچار دن شادی کی گہماگہمی رہی پھر ماموں، ممانی پشاور چلے گئے۔ گھر آبادہوگیا۔
۔۔۔۔ماموں ناصرانگریزی ادبیات کے استاد ہیں مگر اُردو ادب سے بے خبر نہیں ہیں اردو کے کلاسیکی ادب سے تو گہری واقفیت رکھتے ہیں۔ برجستہ اشعار پڑھنے میں انہیں ملکہ حاصل ہے۔ ایک دفعہ مرحومہ ممانی مجیدہ نے کہا کہ مجھے تھوڑا سا دبادیں۔ فوراً غالب کایہ شعر پڑھنے لگے:
اسد خوشی سے مرے ہاتھ پاؤں پھول گئے
کہا جو اس نے، ذرا میرے پاؤں داب تو دے
۔۔۔۔ہزارہ میں ڈاڈرکے علاقے سے دریائے سرّن گزرتاہے۔ دریاکا صاف پانی اور چاروں طرف ہریالی۔۔ میں اس منظر کو حیرت اور مسرت سے دیکھ رہاتھاکہ ماموں ناصر نے معمولی سے تصرف کے ساتھ علامہ اقبال کے یہ اشعار پڑھنا شروع کردیئے:
صف باندھے دونوں جانب بوٹے ہرے ہرے ہیں
ندی کا صاف پانی تصویر لے رہا ہے
ہے دلفریب ایسا کہسار کا نظارہ
پانی بھی موج بن کر اٹھ اٹھ کے دیکھتا ہے
پانی کو چھو رہی ہے جھک جھک کے گل کی ٹہنی
جیسے حسین کوئی آئینہ دیکھتا ہے
۔۔۔۔دل کی ایسی جادوئی حالت تھی جیسے علامہ اقبال کے اشعار الہام کی طرح نازل ہورہے ہوں یہ ماموں ناصر کی برجستگی کاکمال بھی تھا۔
۔۔۔۔گھر کی شادی بیاہ کی محفلوں میں جب صرف خاندان کے افراد موجود ہوتے ماموں ناصر کوئی نہ کوئی غزل اپنے مخصوص ترنم کے ساتھ سناتے۔ بہادرشاہ ظفر کی غزل ’’تادر جاناں ہمیں اول تو جاناہے منع‘‘ اور سراج دکنی کی غزل’’خبر تحیّرعشق سن نہ جنوں رہانہ پری رہی‘‘۔۔ ماموں ناصر ایسی خوبصورتی سے سناتے کہ یہ اصل شاعروں کی بجائے ماموں ناصر کا کلام لگنے لگا۔
۔۔۔۔طبعاً ماموں ناصر مذہبی انسان ہیں مگر مذہبی تعصّبات سے دور۔۔ حالانکہ میرے عزیزوں میں بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے کٹٹرپن کے باعث اپنے تعصّبات سے پاک نہیں ہوسکے۔ یورپ اور امریکہ کا کشادہ ماحول بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑسکا۔۔ مذہبی ہونے کے باوجود ماموں ناصر خلاف شرع تھوک لینے کو عیب نہیں سمجھتے اسی لئے اندھیرا، اجالا ان کا مسئلہ نہیں ہے۔۔ ماموں ناصر کی خوش ذوقی اور شگفتہ مزاجی کے باعث مجھے ہمیشہ ٹوہ رہی کہ ماموں ناصر کی کسی پرانی محبت کو دریافت کروں اس میں کوئی واضح کامیابی تو نہیں ہوئی لیکن اتنا سراضرور ہاتھ آیاہے کہ کسی زمانے میں ماموں ناصر کی فیصل آباد کے ایک میرصاحب سے بہت دوستی تھی۔ ان کی بیگم، بہن، بچے۔۔ گھر کے سب افراد ماموں ناصر کے لئے چشم براہ رہتے۔ انہیں دیکھ کر ماموں ناصر کے چہرے پر بھی شگفتگی پھیل جاتی۔ بعد میں یکایک یہ تعلق ٹوٹ گیا۔ میرا اندازہ ہے کہ ماموں ناصرکی موجودہ شگفتہ مزاجی اسی دور کی عطاہے۔ واللہ ا علم باا لصواب!
۔۔۔۔مجھے شاعری کا شوق ہواتو ماموں ناصر نے میری اصلاح کے لئے ایک استاد قسم کے شاعرجناب اختر بے خودرام پوری(یا کوئی اور پوری) کوبلالیا۔ انہوں نے میری وہ اصلاح فرمائی کہ شاعری سے تائب ہونے میں بس تھوڑی سی کسر رہ گئی۔ عام زندگی میں مجھے راہ راست پر لانے کے لئے ماموں ناصر کسی نہ کسی جناب اختر بے خودرام پوری کو مجھ پر مسلّط کردیتے ہیں۔ شاید انہیں میری اصلاح کا گرمعلوم ہوگیاہے۔
۔۔۔۔ہرانسان کی زندگی عام معمولات کے مطابق بسر ہوتی ہے لیکن ایک ڈگر پر چلتے چلتے اس میں کبھی کبھار کوئی موڑ بھی آجاتاہے۔ کوئی پراسرار، محیر العقول یاروحانی تجربہ یا پھرکوئی ایسا واقعہ، سانحہ ہوجاتاہے جس سے زندگی عام ڈگر سے ہٹ جاتی ہے۔ ماموں ناصر کی زندگی میں بعض ایسے واقعات رونما ہوئے۔ قیام پاکستان کے ایّام میں مشرقی پنجاب میں بم کے ایک دھماکے کے نتیجہ میں ماموں ناصر زخمی ہوگئے۔ موت انہیں چھوکر گزرگئی۔بم کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کی ضرب کا نشان ماموں ناصر کے جسم پر آج بھی موجود ہے۔ اس تجربے سے انہیں زندگی کی اہمیت اور موت کی حقیقت دونوں کا ادراک ہوا۔
۔۔۔۔ریلوے ملازمت کے دوران ماموں ناصر غالباً کوہاٹ میں مقیم تھے۔ وہاں ایک دفعہ موسم بہار میں ایک سانپ نکل آیا۔ ریلوے کے ایک دو ملازموں نے مل کر سانپ کو ہلاک کردیا۔ ماموں ناصر کا قصور صرف اتناتھاکہ وہ بھی جائے واردات پر تماشائی کی حیثیت سے موجود تھے۔ فلمی کہانیوں کے عین مطابق مردہ سانپ کی آنکھوں میں ماموں ناصر کاعکس بھی محفوظ ہوگیا۔ پھر اس سانپ کی مادہ کے انتقام کی سٹوری شروع ہوگئی ماموں ناصر سے اس ناگن نے عجیب انتقام لیا۔ ہرسال بہار کے موسم میں آتی اور ان کے پیروں کو سونگھ کر چلی جاتی۔ اگلی صبح پاؤں اس طرح ہوتے جیسے کسی نے ساری کھال اتارلی ہو۔ ماموں ناصر اس دوران ریلوے کی ملازمت چھوڑکر محکمہ تعلیم میں آگئے مگر محکمے کی تبدیلی کابھی اس ناگن نے کوئی اثر نہیں لیا۔ ماموں اس موسم میں پشاور میں ہوتے یا کوہاٹ میں، میران شاہ میں ہوتے یا ڈیرہ اسماعیل خاں میں۔۔ اپنے پیار کی آگ میں جلتی اور انتقام کی آگ میں سلگتی، غلط فہمی کی ماری وہ ناگن وہیں پہنچ جاتی، ان کے پاؤں سونگھتی اور انہیں اذیت میں مبتلا کرکے لوٹ جاتی۔ آفرین ہے اس ناگن کی اخلاقیات پرکہ اس نے ماموں کے پاؤں سونگھنے سے کبھی تجاوز نہیں کیایہ الگ بات کہ اسی حرکت سے ہی ماموں کے پیروں کا ماس الگ ہوجاتاتھا۔ شاید وہ ان کے ماس ہی کو ان کے جسم سے الگ کرنا چاہتی تھی۔ ڈیرہ اسماعیل خاں میں قیام کے دوران جب وہ ناگن اپنے مُقررّہ وقت پر پہنچی تو اتفاق سے ماموں صادق اور چند سٹوڈنٹس بھی وہیں موجودتھے۔ ماموں ناصر تو اس ناگن کو دیکھتے ہی سحرزدہ سے ہوگئے مگر ان کے شاگردوں اور ماموں صادق نے مل کر اس ناگن کاکام تمام کردیا۔یوں’’ناگن کا انتقام‘‘ کی کہانی اپنے انجام کو پہنچی لیکن یہ کہانی کسی فلم کی سٹوری یاکسی قدیم مائتھالوجی سے اخذ کی ہوئی نہیں تھی۔ماموں ناصر نے فلمی ہیرو کے برعکس زندگی کے ہیرو کی طرح اپناپارٹ پلے کیا۔ فلمی ہیروکی طرح مصنوعی کرب خود پر طاری نہیں کیا بلکہ واقعہ کی پوری اذیّت بھوگی اور سالہاسال موت سے معانقہ کرکے نیا جنم لیتے رہے۔۔ بم دھماکے اور غلط فہمی کی شکار منتقم مزاج ناگن کے واقعات کے بعد تیسرا اہم واقعہ ماموں ناصر کی ممانی آصفہ کے ساتھ شادی کاہوا۔ یہ شادی ان کی زندگی کی ڈگر کو یکسر تبدیل کرگئی۔ ممانی آصفہ کے ذریعہ ہمارے ننھال میں زندگی کا ایسا طریقہ سامنے آیا جس کی پہلے ہمارے ننھال میں کوئی مثال موجود نہ تھی۔ممانی آصفہ کے پاس بیٹھے ہوئے مجھے یوں محسوس ہوتاہے جیسے’’ شیداپستول‘‘ جینٹری میں آگیاہو۔ بلکہ کبھی کبھی تو ماموں ناصر کی حالت بھی کچھ ایسی ہی دکھائی دینے لگتی ہے۔
۔۔۔۔مرحومہ ممانی مجیدہ سے ماموں ناصر کے چاربچے ہیں تین بیٹیاں اور ایک بیٹا۔۔ مُبارکہ، وحیدہ، غزالہ* ،مُبشّراحمد خالد۔۔ ممانی آصفہ سے دوبیٹیاں ہیں۔۔ عائشہ، بُشریٰ۔۔ ممانی مجیدہ کی ساری اولاد شادی شدہ ہے بڑی بیٹی مبارکہ میری بیوی ہے۔ اس سے چھوٹی وحیدہ کے شوہر بشیر احمدشاہد عمر میں مجھ سے چھ ماہ بڑے ہیں اور سب سے چھوٹی غزالہ کے شوہر محمود عمر میں مجھ سے دوسال بڑے ہیں۔ یوں میں رشتہ کے لحاظ سے اس طرح ماموں ناصر کاسب سے بڑا داماد ہوں کہ ان کی بڑی بیٹی کاشوہر ہوں اور اس لحاظ سے اب تک کا سب سے چھوٹا داماد ہو ں کہ دونوں چھوٹے داماد عمر میں مجھ سے بڑے ہیں۔۔۔؂ایں سعادت بزور بازونیست
۔۔۔۔میرے بعض بھائیو ں کو ایک دوماموؤں سے شدید شکایتیں ہیں۔ ایک دفعہ میں انہیں سمجھارہاتھاکہ ہر شخص کے اپنے حالات ہوتے ہیں، اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں، ترجیحات ہوتی ہیں۔ اب ہمیں کسی ماموں کاشکوہ کرنے کی بجائے یہ دیکھناچاہیے کہ ہم اپنے بھانجوں بھانجیوں کے ساتھ کیاسلوک کررہے ہیں۔ تاکہ ہمیں بھی کل کلاں ان سے ویسے ہی ریمارکس نہ سننا پڑیں جیسے آج بعض ماموؤں کے بارے میں ہم دے رہے ہیں۔شکوے شکایتیں تورشتہ داری کا حصہ ہیں۔ ایک حد تک رہیں تو ان سے بھی محبت گہری ہوتی ہے۔ ویسے بحیثیت رشتہ ماموں کارشتہ ماموں کاہی ہوتاہے۔ ہمارے بھانجوں کاماموں ہو یا ہمارا ماموں، ہیرکاماموں ہویارانجھے کا ماموں۔۔ بہن کو بھائی سے اور بھائی کو بہن سے سچی محبت ہوتو سارے ’’مامے‘‘ ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ ماموں ناصر میرے لئے ’’رانجھے کاماموں‘‘ ثابت ہوئے ہیں۔ رانجھے کا ماموں باقی دنیا کے ماموؤں جیسا ہوتے ہوئے بھی ان سے تھوڑا مختلف ہے۔ رانجھے کا ماموں اسے خودبانسری لے کردیتاہے۔ بھینسیں پلے سے خرید کردیتاہے۔ رومینٹک فضاپیدا کرنے میں ہر ممکن مدد کرتاہے۔ کھیڑوں سے مقابلہ کرتاہے اور پھر رانجھے کی ساری مشقتیں خود اٹھاکراسے ہیرعطاکراتاہے۔ مجھے یقین ہے اگر ماموں ناصر پہلے رانجھے کے دور میں اس کے ماموں ہوتے تو ہیر سے اس کی شادی کراکے رہتے۔ دراصل ماموں ناصر طبعاً مذہبی ہونے کے باوجود صلح جو، انسان دوست اور محبتی انسان ہیں۔
۔۔۔۔ عالمی امن کے لئے موجودہ دور کے بڑے ممالک جس طرح ’’ہیرکے مامے‘‘ بن کر دہائی دے رہے ہیں اگر رانجھے کے ماموں کو موقعہ دیں تو بہت سے جھگڑے فوراً ختم ہوسکتے ہیں، مثلاً اگر افغان مسئلہ پر مفاہمت کے لئے ماموں ناصر کو ذمہ داری سونپی جائے تو ماموں، جنرل نجیب سے یوں بات کریں گے: افغان عبوری حکومت کے تمام ارکان ذاتی طورپر آپ سے دلی محبت رکھتے ہیں مگر بین الاقوامی مداخلت کے باعث مجبور ہیں۔۔ پھر افغان عبوری حکومت سے یوں بات کریں گے: جنرل نجیب تو آپ سب کی اتنی عزت کرتے ہیں کہ بیان سے باہر ہے مگر روسی دباؤ کے باعث ان کی پیش نہیں جارہی۔ اس لئے آپ اپنے رویے میں تھوڑی لچک پیدا کرکے ان کی مدد کریں۔۔ یوں چند ملاقاتوں کے بعد افغان مجاہدین اور جنرل نجیب کی مشترکہ حکومت قائم ہوجاتی۔ افغانستان میں امن و امان ہوجاتااور ساری بیرونی طاقتیں منہ دیکھتی رہ جاتیں۔
۔۔۔۔اس مثال سے ماموں ناصر کی ہمدرد، صلح جو اور محبتی طبیعت کو واضح کرنا مقصود تھا۔ اس وقت عالمی امن کی خرابی میں سارا قصور ان بڑے ملکوں کاہے جو خوامخواہ ’’ہیر کے مامے‘‘ بنے پھرتے ہیں جبکہ دنیاکو اس وقت خاص طورپر رانجھے کے ماموؤں کی ضرورت ہے۔ ماموں ناصر جیسے لوگوں کی ضرورت ہے۔
***
* افسوس یہ خاکہ رسالہ ’’صریر‘‘میں چھپنے کے بعد غزالہ اور محمود میں علیحدگی ہوگئی۔ پتہ نہیں یہ اس خاکے کااثر تھایا محمود کی اپنی خاک کا۔۔ غزالہ اب محمد اجمل پاشا کی بیوی ہے خدا ان دونوں کوخوش رکھے آباد رکھے ۔ ۔۔ ؂اور درویش کی دعاکیاہے۔

محبت کی نمناک خوشبو

محبت کی نمناک خوشبو
آپی

بنی ہوئی ہے ڈھال وہ میری خاطر حیدرؔ
مِرے مخالف کو جو کماں جیسی لگتی ہے

۔۔۔۔عام طورپرماہرین کا خیال ہے کہ کسی بچے کے بعد جو بچہ پیداہوتاہے ان دونوں میں خوامخواہ کی مخاصمت پیداہوجاتی ہے۔ دراصل پہلا بچہ یہ سمجھتاہے کہ بعد میں آنے والے نے اس سے اس کی ماں کی محبت چھین لی ہے۔۔ اسی طرح ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ پہلوٹھی کی اولاد اور باپ میں بھی ایک اندرونی مخاصمت ہوتی ہے کیونکہ عورت کی توجہ شوہر سے ہٹ کر پہلے بچے پر مرکوز ہوجاتی ہے۔ یہ دونوں باتیں عمومی طورپر بڑی درست پائی جاتی ہیں لیکن آپی کی حد تک یہ دونوں باتیں غلط ثابت ہوچکی ہیں۔ پہلی اولاد ہونے کے باوجود اباجی کو ہمیشہ آپی سے بے حد محبت رہی۔ میں آپی کے بعد پیداہوا مگر ہم دونوں میں جو محبت ہے وہ شاید کسی اور بہن بھائی کے حصے میں نہیں آسکی۔ ماہرین کی دونوں باتیں غلط ثابت ہوئی ہیں تو یہ سراسر آپی کی اپنی خوبی ہے۔
۔۔۔۔امی جی بتایاکرتی تھیں کہ پیدائش کے وقت آپی انتہائی کمزور اور لاغر تھی۔ ثبوت کے طورپر امی جی نے آپی کو پہنائی جانے والی پہلی قمیص سنبھال رکھی تھی جو شاید اب آپی کے پاس ہی محفوظ ہے لیکن اس وقت ہم سارے بہن بھائیوں میں جسامت کے لحاظ سے آپی اول نمبر پرہے۔ ایک دفعہ آپی نے مجھے کہاتم اتنے دبلے کیوں ہو۔ مرد کارعب اس میں ہوتاہے کہ اس کا پیٹ تھوڑاسا بڑھاہوا ہو۔ بس پھر ایسا ’’فیضانِ نظر‘‘ ہواکہ مِرے پیٹ کا رعب و دبدبہ مسلسل بڑھتاہی جارہاہے۔
۔۔۔۔آپی کی اور میری عمر میں ایک سال ،ایک مہینہ اور ایک دن کا فرق ہے۔بچپن میں جب کوئی ہم سے عمر کا فرق پوچھتاتو ہم بڑے مزے سے کہتے ایک سال، ایک مہینہ، ایک دن، ایک گھنٹہ، ایک منٹ ایک سیکنڈ۔۔ میری پیدائش پر آپی کمزور ہونے کے باوجود مجھے گود میں لے کر بیٹھتی۔ کاکا۔۔کاکا۔۔ کہہ کر باتیں کرتی۔ بچپن میں اکثر میں آپی کوڈرایاکرتاتھا اور زیادہ تر ڈرانے کی وجہ سے ہی اباجی سے مارکھایاکرتاتھا۔ کبھی آپی کاکوئی قصور ثابت ہوجاتاتو اسے صرف ایک تھپڑپڑتا۔ ایک دفعہ کسی عزیز نے اباجی سے کہاکہ آپ حیدرکو زیادہ مارتے ہیں مگربیٹی کو بس ایک تھپڑمارکر چھوڑ دیتے ہیں۔ اباجی نے کہابیٹی کو مارنے لگتاہوں تووہ مٹی کی دیوار بن جاتی ہے پھر اسے کیاماروں۔ حیدرکو لگتی کم ہیں اچھل کود زیادہ کرتاہے اس لئے اسے مارنے میں بھی مزہ آتاہے۔۔ پڑھائی سے آپی کو شروع سے ہی چڑ رہی ہے۔ ایسے لگتاہے جیسے آپی کو بچپن میں ہی بلہے شاہ کے ’’علموں بس کریں اویار‘‘ والے تصورکا ادراک ہوگیاتھا۔ شروع شروع میں آپی کو زبردستی سکول بھیجنا پڑتاتھا۔ کچی جماعت کا امتحان ہوا۔ نتیجہ نکلا۔ آپی فیل ہوگئی۔ گھرآئی تو بڑی خوشی سے کہنے لگی:امی۔ امی۔ گدھے گدھے جتنی لڑکیاں فیل ہوکررورہی تھیں۔ میں فیل ہوکر بھی ہنس رہی ہوں۔۔ گویا یہ بھی ایک بہادری تھی۔ اپنی شکست کو مسکراکر تسلیم کرناتھا۔
۔۔ ۔بچپن کے واقعات میں سے مجھے یادآرہاہے۔ جب ناناجی ابھی ہندوستان میں ہی تھے، ہم ناناجی سے ملنے گئے۔ وہاں شہر کے چوک سے گلی کے موڑ پر ایک کنواں تھا جہاں سکھ حضرات کھلے عام نہایاکرتے تھے۔ ہم دونوں ایک دیوار کی اوٹ سے انہیں دیکھتے۔ بیک سائڈ سے لمبے بالوں کے باعث ہم انہیں عورتیں سمجھتے اور سوچتے کہ کتنی بے شرم عورتیں ہیں مگر جب ان کے چہرے سامنے آتے تو داڑھیوں کا ماجرا ہماری سمجھ میں نہ آتااور ہم پریشان ہوکرگھر کی طرف دوڑجاتے۔۔ باباجی کی گراموفون مشین کو ہم ہمیشہ حیرت سے دیکھتے۔ ریکارڈ بجتاتو ہم گانے کی طرف توجہ کرنے سے زیادہ گانے والوں کی تلاش شروع کردیتے۔ کبھی بھونپو میں سے جھانکتے، کبھی لکڑی کے بکس کو کھٹکھٹاتے۔ ہم یہی سمجھتے تھے کہ گیت گانے والے یہیں کہیں چھپ کرگارہے ہیں۔۔ میں سادگی اور بھولپن میں آپی کازیادہ دیر تک ساتھ نہ دے سکا۔ خانپور میں ہمارے گھر کے سامنے محکمہ صحت کی طرف سے حفظان صحت کے سلسلے میں فلم دکھائی گئی۔ فلم کے دوران دلچسپی برقرا رکھنے کے لئے وقفے وقفے سے فلمی گیت بھی دکھائے، سنائے گئے۔ ’’رم جھم رم جھم پڑے پھوار۔ تیرا میرانت کا پیار ‘‘
اس گیت کاسین دیکھا۔ ہیرو ہیروئن دو جھولوں پر بیٹھے جھولاجھول رہے ہیں۔ ہلکی ہلکی برسات ہورہی ہے اور یہ گیت گایاجارہاہے۔۔ آپی بعد میں کہنے لگی: ہائے اللہ وہ بہن بھائی جھولا جھولتے ہوئے کتنے پیارے لگ رہے تھے۔ بس یہاں سے سادگی اور بھولپن کے معاملے میں ہماری راہیں ایک دوسرے سے الگ ہوگئیں۔
۔۔۔۔رحیم یارخاں میں ہمارے ایج گروپ میں بڑے پیارے پیارے بچے شامل تھے۔ آپا حفیظ، رضیہ(لجو) صفیہ(تپو)، سعیدہ، بشیراں، نسیم، ظفر، بشیر حقہ۔۔ بعد میں آپا حفیظ زچگی کے کیس کے دوران فوت ہوگئی۔ رضیہ ایئرہوسٹس بن گئی مگر اچانک(؟) فوت ہوگئی۔ سعیدہ بے چاری ویسے ہی رسموں رواجوں کی بھینٹ چڑھ کر زندہ در گورہوگئی۔ صفیہ اب لاہور میں ایک اچھی جاب پر ہے۔ بشیراں اور نسیم گھریلو زندگی نبھارہی ہیں۔ ظفرڈرائیوربن کر امارات کی طرف نکل گیاہے۔ بشیرحقے کا پتہ نہیں چلاکہ اب کہاں ہے۔ ہم شام کے وقت گھر والی گلی میں سٹریٹ لائٹ کے نیچے مختلف قسم کے کھیل کھیلاکرتے تھے۔ خاص طورپر ایک کھیل۔۔ ’’مائی نی مائی تنور تپیاکہ نائیں‘‘۔ ایک اوٹ پٹانگ ساگیت بھی ہم نے بنایاہواتھا:
اللہ ڈوایا۔۔ چکی تلوں آیا(اللہ ڈوایا۔۔چکی کے نیچے آیا)
اُتّوں ماریاکھَلاتلوں نکل آیا(اوپر سے جوتارسید کیاگیاتو نیچے سے نکل آیا)
۔۔۔۔جس دوست کے ساتھ جھگڑاہوجاتا۔اللہ ڈوایاکا نام کاٹ کر اس دوست کے نام کو اللہ ڈوایاکے وزن تک کھینچ کھانچ کے لے آتے اور گیت شروع کردیتے۔ ناراض دوست مارنے کو لپکتااور یوں پھر سے صلح ہوجاتی۔ ان سب بچوں میں آپا حفیظ سے آپی کی دوستی بہت گہری تھی۔ زبیدہ جسے بچپن میں ہم بلوکہتے تھے ایک دفعہ اباجی کی دوکان پر آئی اور کہیں دوکان کے اندر ہی جاکرسوگئی۔ اباجی نے سمجھا بیٹی گھر چلی گئی ہے۔ شام کو دوکان بندکرکے آئے تو امی جی نے پوچھا: بلوکہاں ہے؟۔ اباجی نے سمجھا امی جی نے بلو کو چھپایاہواہے اور جان بوجھ کر مذاق کررہی ہیں لیکن جب پتہ چلاکہ بلوواقعی موجود نہیں توپھر ہمارے گھر میں ہی نہیں سارے محلے میں افراتفری مچ گئی۔ تب آپی، میں اور ہمارے ایج گروپ کے بچے بلو کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ محلہ قاضیاں سے لے کر ریلوے اسٹیشن تک گئے۔ سب باری باری ایک ہی صدا لگاتے ’’اے بلو۔اے.....‘‘ جب ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک گئے تو گھر لوٹ آئے۔ اس دوران اباجی کو اچانک دوکان چیک کرنے کاخیال آگیاتھا اور وہ بلوکو وہاں سے گھرلاچکے تھے۔ اس رات آپی اور میں دیر تک بلوکو پیار کرتے رہے۔
۔۔۔۔بچپن میں آٹاپسوانے، کنویں سے پانی بھرکرلانے اور ٹال سے لکڑیاں لانے کے کام ہم دونوں بھائی بہن نے مل کر کئے۔ بعد میں زبیدہ اور شاہدہ نے بھی ان مشقتوں میں ہمارا ہاتھ بٹایا۔ جب آپی کو کم عمری میں ہی برقعہ پہنادیاگیاتو آپی نے گھرکا سارا کام سنبھال لیا۔ میرا خیال ہے گھر کے کام کاج میں امی جی کو جتنا آرام ملا،آپی کی وجہ سے ملا،یاپھر مبارکہ کی وجہ سے۔۔ وگرنہ ایک بیٹی نے تو اپنے سسرال سے بھی کپڑے دھلنے کے لئے امی جی کو بھیجنے شروع کردیئے تھے اور ایک بہونے چارپائی پر بیٹھ کر امی جی سے خدمت کرائی ہے۔ ماں، باپ اور باباجی کی جو خدمت آپی نے کی اس کی توفیق اور کسی بہن بھائی کو نہ مل سکی۔ اباجی کی محبت ہم دونوں کے لئے یکساں تھی۔ امی جی کی محبت میں پلڑامیری طرف تھوڑا سازیادہ تھاجبکہ باباجی کی محبت آپی کے لئے زیادہ بلکہ بہت زیادہ تھی۔ گویا ماں، باپ اور باباجی کی محبتوں کو جمع کریں تو ہم دونوں کا دامن برابربھراہواہے اور اس میں کوئی تیسرا بھائی، بہن ہمارا حریف ہی نہیں۔
۔۔۔۔والدین کی خدمت کے بعد آپی کو سسرال جاکر اپنے سسر کی خدمت کاموقعہ ملا۔ یہ بزرگوں کی دعائیں ہی تھیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپی کو پانچ بیٹے اور ایک بیٹی کی دولت عطاکی۔ سارے بچے خوبصورت اور صحت مند ہیں۔ عرفان، عمران، کامران،صائمہ یکے بعددیگرے پیداہوئے پھرلقمان اور نعمان (جنہیں ہم پیارسے چوچو اور نوماکہتے ہیں)جڑواں پیداہوئے۔ پی اے ایف کے رہائشی ایریا میں دونوں بچوں کی وجہ سے بڑی شہرت ہوئی۔ آپی جہاں بھی جاتی بچوں کو ایک ٹوکری میں فٹ کرکے بٹھادیتی اور مزے مزے سے ٹوکری اٹھائے شاپنگ سنٹر یاہسپتال سے ہوآتی۔ جڑواں بچوں کی ٹوکری دیکھ کے لوگ لطف اندوز ہوتے اور باری آنے سے پہلے آپی کو باری مل جاتی۔
۔۔۔۔بھائی عبدالرحیم ہنس مکھ اور خوش مزاج انسان ہیں۔ محنتی اور مشقتی بھی بہت ہیں۔ محنت کے نتیجہ میں ان کا جسم خاصامضبوط ہے۔ یہی مضبوطی ان کی اولاد میں بھی منتقل ہوئی ہے۔ ایک دفعہ ٹرین کے سفر میں آپی کا منجھلا بیٹاکامران میرے ساتھ تھا۔ رات کو میں نے اسے اوپر کی برتھ پر سلادیا۔ رات کے کسی لمحے میں کامران لڑھک کر نیچے آن گرا۔ میں گھبراگیاکہ بچے کاکوئی ہاتھ، پاؤں فریکچر نہ ہوگیاہو۔ کامران نے بولائی نظروں سے اِدھر اُدھر دیکھااور پھر سوگیا۔ منزل مقصود پر پہنچ کرمیں نے کامران سے پوچھا:
’’بیٹے!کہیں ٹانگ یا بازو میں تکلیف تو نہیں ہے؟‘‘
’’نہیں تو۔۔ ایسی تو کوئی بات نہیں۔۔ لیکن آپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟‘‘کامران نے الٹا مجھ سے سوال کیاتومیں نے اسے بتایاکہ رات تم برتھ سے نیچے گرگئے تھے۔ یہ بات سن کر کامران نے لاعلمی اور حیرت کا اظہارکیااور میں اس کی حیرت پر حیرت زدہ رہ گیا۔گھر آکر عزیزوں کو یہ بات بتائی تو ایک عزیز نے کہا:آپی کے سارے بچے ماشاء اللہ پتھر اور لوہے کے بنے ہیں۔ اگر چھوٹے چوچوکومکان کی چھت سے نیچے پھینکیں تو فرش اکھڑجائے گا، چوچو کو کچھ نہیں ہوگا۔ ہرچند یہ بات مذاق میں کہی گئی تھی تاہم یہ حقیقت ہے کہ آپی کے بچے جتنے خوبصورت اور سمارٹ ہیں اتنے ہی مضبوط جسم کے مالک بھی ہیں۔
۔۔۔۔اباجی کی روحانی قوتیں تھوڑی سی آپی میں بھی منتقل ہوئیں۔ خانپور میں ہمارے ایک ہمسائے میاں احمد بخش سیال بڑے اچھے آدمی تھے۔ ہمارے داداجی کے دوست بھی رہے تھے مگر ایک مرحلے پر ہمیں محسوس ہواکہ وہ باباجی اور اباجی کو لڑانے کاچکر چلارہے ہیں۔ آپی نے گھر میں ایک خاص مسنون دعاکا وِرد شروع کردیا اور ان کے گھر پیغام بھجوادیاکہ میں قریشی کی بیٹی ہوں۔ میں نے وِرد شروع کردیاہے جو کوئی بھی ہمارے گھر میں بے سکونی پیداکرناچاہتاہے وہ اب نہیں بچے گا۔۔ اسے دعاکا اثر کہیں یا نفسیاتی اثر لیکن دوسرے ہی دن میاں احمد بخش سیال شدید بیمار پڑگئے۔ علالت کی حالت میں ہی انہوں نے اپنی ایک بہو کے ذریعے آپی کو معذرت کا پیغام بھیجااور اپنی صحت یابی کے لئے دعاکرنے کوبھی کہا۔
۔۔۔۔آپی کو تنہائی میں خود کلامی کی عادت ہے۔ اگر آپی میں بھولپن زیادہ نہ ہوتاتو قریشیت کے روحانی اثرات اور تنہائی میں خودکلامی کی عادت کے باعث آپی بھی گوتم بدھ کی طرح کسی جنگل کی راہ لیتی اور اسے بھی گوتم جیسے گیان کی روشنی مل جاتی۔ لیکن اس زمانے میں ایسا کیسے ہوسکتا؟۔۔ اچھا ہوا آپی کابھولپن آڑے آگیاوگرنہ خوامخواہ محکمہ جنگلات والوں نے چالان کردیناتھا۔ بلکہ خداکاشکر ہے کہ گوتم بدھ جیسی عظیم ہستی اس زمانے میں نہیں ہے وگرنہ محکمہ جنگلات والوں نے توشاید.....
۔۔۔۔آپی فطرتاً نیک دل اور رحم دل ہے۔ دوسروں کا دکھ سن کر رونے بیٹھ جائے گی۔گھرمیں جو کچھ ہوگا(حسب توفیق) سائل کودے دے گی۔ البتہ اپنی معصومیت اور بھولپن کی وجہ سے کسی غلط فہمی میں مبتلاہوجائے تو پھر اسے دور کرنے میں بھی خاصاوقت لگتاہے۔ میرے ایک عزیز کو جو مجھے بے حد عزیز ہے۔ اس کی سوتیلی والدہ نے آدھی رات کے وقت گھرسے نکلوادیا۔ اس عزیزکو سارے شہر میں آپی کے گھر کے سوائے کوئی جائے پناہ نظر نہ آئی۔ آپی اور بھائی عبدالرحیم نے اس عزیز کوٹھکانہ دیا۔ اس سے ہمدردی کی۔ اور جب وہ عزیز کسی باہر کے ملک چلاگیاتو اس سے اپنی نیکی کی پوری پوری سزاپالی۔ اس عزیز کی زیادتی کسی غلط فہمی کا نتیجہ سہی۔ مجھے اس ے محبت سہی لیکن میں اسے آج بھی اس معاملے میں قصوروار سمجھتاہوں۔
۔۔۔۔ایک اور بہت ہی قریبی عزیز کوآپی اپنے ہاں لے گئی۔ وہا ں اسے جو کام بھی سکھانے پر لگاتے اس کی شہزادگی آڑے آجاتی۔ میں نے خود یکھاکہ آپی نے اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر، اپنے شوہر سے چھپاکراس قریبی عزیز شہزادے کی خواہشیں پوری کیں۔ آج آپی کے بارے میں سب سے زیادہ تضحیک آمیز باتیں کرنے کا شرف بھی اسی شہزادے کو حاصل ہے۔ اس شہزادے کے کردارمیں بڑی جان ہے۔ میں اس پر تفصیل سے لکھنے کاآرزومندہوں لیکن شاید ابھی اس کردار پر لکھنے میں کچھ وقت لگے۔
میں اپنے پیچیدہ حالات کے باعث سنگین مسائل میں گھراہواتھا۔ میرے بعض سوتیلے عزیز جنہیں بعض دوسروں پر اپنے سوتیلے پن کازہرنکالناتھامگر وہ ان کی دسترس میں نہیں تھے انہوں نے ان کے متبادل کے طورپر مجھے ہی نشانہ بنالیا، گھات ایسے لگائی کہ میرے ماں جایوں کو آگے کردیا۔ قریبی عزیز دشمن بن گئے۔ خون کے رشتے ’’خونی رشتے‘‘ بن گئے۔ سوتیلے عزیز اپنی فتح مندی پر نازاں تھے۔ میری مجبوری کچھ اور تھی
احباب کے تیروں کے تو ہم عادی تھے حیدرؔ
اس  با ر مگر  بھائی تھے، احباب نہیں تھے
ہرچند اب میں سنبھل گیاہوں اور اس پوزیشن میں ہوں کہ سارے کرم فرماؤں کے قرض سود سمیت انہیں واپس کردوں۔ تاہم اس سارے تماشے میں آپی کا کردار بڑا مضبوط، توانااور مثالی رہا۔ ایک بھائی اور بھابھی۔۔ آپی کو میرے خلاف بھڑکانے گئے۔ آپی کو جتنی باتیں معلوم تھیں انہیں کی حد تک جواب دیتی رہی۔ جب وہ چرب زبانی سے چالاکی دکھانے لگے تو آپی نے انہیں دوٹوک لفظوں میں کہا: میں حیدراور مبارکہ سے تعلق نہیں توڑسکتی۔ تم سمجھتے ہومیں حیدر سے تعلق توڑلوں گی۔اگر حیدر خود بھی مجھے چھوڑدے میں تب بھی اسے نہیں چھوڑوں گی۔
۔۔۔۔جب مجھے اپنے ذرائع سے اس بات کا علم ہوامجھے یوں لگاجیسے میں چاردن کا بچہ ہوں جسے ایک سال ،ایک مہینہ اور پانچ دن کی کمزور سی آپی نے اپنی گود میں اٹھایاہواہے۔ مجھے اٹھائے اٹھائے وہ تھک گئی ہے مگر پھر بھی پیارسے ’’کاکا۔۔۔کاکا‘‘ کہے جارہی ہے۔ پھر کاکا۔۔کاکا۔ کہتے ہی وہ بڑی ہوتی جارہی ہے۔ اتنی بڑی کہ صرف میرے چہرے پر بیٹھنے والی مکھیوں کوہی نہیں اڑاسکتی بلکہ مجھے کووّں، چیلوں اور گِدھوں کے حملوں سے بھی محفوظ رکھ سکتی ہے۔ اسی لمحے مجھے جیسے محسوس ہوتاہے کہ میری مری ہوئی ماں دوبارہ جی اٹھی ہے۔

یہ محسوس ہوتاہے جیسے
کوئی غم زدہ، بے نشاں چاپ
میرے تعاقب میں
اک نرم جھونکے کی صورت چلی آرہی ہے
کوئی ہے۔۔جو میرے عقب میں
محبت کی نمناک خوشبوبکھیرے
امڈتے ہوئے تیز شعلوں سے مجھ کو بچائے
مرے ہر قدم کی سلامت روی کے لئے
التجاؤں، دعاؤں کی برکھامیں خود کو بھگوئے
مرے سرپہ آنچل کاسایہ کئے
آرہاہے
***