Mittwoch, 13. Juli 2011

بعد درویش: اُردو ادب کے نوبل پرائز

 اُردو ادب کے نوبل پرائز
میرزاادیب

خاموشیوں کے لب پہ کوئی گیت تھا رواں
گہری اداسیوں کے کنول جھومتے رہے

۔۔۔۔میرزاادیب سے مل کر مجھے ہمیشہ ایک روحانی خوشی کااحساس ہوا۔ اتنے بڑے اور سینئر ادیب ہونے کے باوجود انہوں نے ہمیشہ اتنی محبت دی کہ مجھ سے مارے خوشی کے سنبھالی ہی نہیں جاسکی۔ میں جب بھی ان کی خدمت میں حاضر ہوا، انہوں نے بڑھ کر گلے لگایا۔ دردمند دل رکھنے کے باعث دوسروں کے دکھ درد کو از خود محسوس کرلیتے ہیں۔
۔۔۔۔میرزاادیب بحیثیت ادیب کئی جہات کے حامل ہیں۔ رومان نگار، افسانہ نگار، ڈرامہ نگار، خاکہ نگار، کالم نگار، سوانح نگار۔ اس نگارخانے سے ہٹ کر میرزاادیب بچوں کے لئے لکھنے والے ادیب بھی ہیں اور ’’ادب لطیف‘‘ کے درخشندہ دور میں اس کے مدیر بھی رہے ہیں۔ میرزاادیب کے ساتھ ان کے تمام دوستوں نے یہ زیادتی کی کہ ان کی طبعی شرافت کے باعث انہیں تواتر کے ساتھ بے حد شریف انسان کہنا شروع کردیااس کا نقصان یہ ہواکہ جس طرح بعض لوگ کمینگی کی آخری حدپار کرجاتے ہیں، میرزا ادیب شرافت کی آخری حد پارکرگئے۔آخر شرافت کی بھی کوئی حد ہونی چاہئے!
۔۔۔۔میرزاادیب کی ذاتی زندگی کاجو عکس’’صحرانورد کے خطوط‘‘ اور ’’صحرانورد کے رومان‘‘ میں نظرآتاہے اور جو ایک رومانوی رویے کے طورپر ان کے افسانوں اور ڈراموں میں بھی صاف دکھائی دیتاہے ان کی خود نوشت سوانح میں نمایاں ہوکر ابھرآیاہے۔ خاکہ نگاری اور کالم نگاری میرزاادیب ’’نظریۂ ضرورت‘‘ کے تحت کرتے ہیں تاہم اس میں بھی وہ اپنے ادبی آئین کی روح کو پامال نہیں ہونے دیتے۔ بچوں کے لئے لکھے ہوئے میرزاادیب کے ادب کو پڑھ کر مجھے وہ بچہ دلاور علی باربارنظرآیاجسے گھروالوں نے کبھی بڑھئی بنانے کی کوشش کی تو کبھی لوہاربنانے کی سعی فرمائی مگر دلاور علی نے بڑھئی اور لوہارکے کام پر آوارہ گردی کو ترجیح دی۔ یوں اس کے بچپن کی آوارہ گردی اسے اپنے اندر کے صحراؤں میں لے گئی اور پھر ’’صحرانورد کے خطوط‘‘ سے وہ بچہ دلاور علی۔۔ میرزا ادیب بن کرابھرا۔ میرزاادیب نے بچوں کے لئے کہانیاں اور ڈرامے لکھ کر اس بچے کو زندہ رکھاہواہے جو ان کے اندر موجود ہے اور جو انہیں میرزا ادیب بنانے کا موجب بناہے۔ میرے نزدیک وہ بچہ تخلیقی قوت کااستعارہ ہے۔
۔۔۔۔’’ادب لطیف‘‘ کے دورِ ادارت میں میرزاادیب نے متعدد ایسے نئے ادیبوں کو متعارف کرایااور ان کی حوصلہ افزائی کی جو آج اردو ادب کے معتبر نام ہیں۔ ڈاکٹر سید عبداللہ نے لکھا تھاکہ میرزاادیب صرف ادیب ہی نہیں، ادیب گر اور ادیب ساز بھی ہیں ’’ادب لطیف‘‘ کی ادارت کے زمانہ میں میرزاادیب کی قابل قدر خدمات کے پیش نظر انہوں نے ازراہ تفنّن میرزاادیب کانام ہی عبداللطیف رکھ دیا۔ ’’ادب لطیف‘‘ کے دورِ ادارت میں میرزاادیب کے دواہم کارنامے ادب کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ اردو انشائیہ جب ابھی نوزائیدہ تھااور اس صنف کا ابھی کوئی نام ہی نہیں رکھاگیاتھا تب میرزاادیب نے اس نئی صنف کی حوصلہ افزائی کی۔ انشائیہ نام تجویز ہونے پر اسے رائج کرنے اور فروغ دینے میں بھی اہم کردار اداکیا۔
میرزاادیب کابحیثیت مدیردوسرا یادگارکارنامہ یہ ہے کہ جب ترقی پسند تحریک کے جنرل سکریٹری مغلوب الغضب ہورہے تھے اور انہوں نے ایک قرار داد کے ذریعے منٹو، ممتاز مفتی، ممتاز شیریں، صمد شاہین اور متعدد دیگر ادباء کے خلاف ادبی بائیکاٹ کی مہم شروع کرکے ادب میں چھوت چھات کے نظام کی بنیاد رکھ دی تھی ،تب میرزاادیب نے بائیکاٹ کے اس غیرادبی اور غیر اخلاقی حکم کو تسلیم کرنے سے انکارکردیا۔ ان کے نزدیک ترقی پسندیا غیر ترقی پسند کی بجائے ادب محترم تھا۔ وہ یہ تسلیم کرنے کو تیارنہیں تھے کہ غیر ترقی پسند مگر اوریجنل اور اچھے ادیبوں کی تخلیقات کابائیکاٹ کیاجائے۔ چنانچہ انہوں نے بائیکاٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی کی۔ ادارت چھوڑنے کے لئے تیارہوگئے مگر اوریجنل ادیبوں کے بائیکاٹ کو انہوں نے اوچھی حرکت ہی سمجھا۔
۔۔۔۔ایک ادیب نے ایک بارمذاق کے طورپرکہاتھا: ’’لاہورنے ایک ہی ادیب پیداکیا ہے۔ میرزاادیب‘‘۔۔ اس جملے پر غورکرتاہوں توبڑا سچ معلوم ہوتاہے لاہور میں جتنے نامور ادباء ہیں دوسرے شہروں سے چل کر لاہور آئے اور پھر لاہوری ہوگئے لیکن میرزاادیب اوریجنل ’’لاہوری‘‘ ہیں کرشن نگر اور بھاٹی گیٹ کی مٹی سے اُگے ہوئے اور جڑے ہوئے۔ لاہور کی ثقافت کے بیشتر شریفانہ اجزا ء میرزاادیب نے اپنے پاس رکھ لئے اور بے مروتی جوڑ توڑ، شرارت وغیرہ کے منفی اجزاء دوسروں کے لئے چھوڑ دیئے تاکہ جوچاہے بقدر ظرف یا حسب ضرورت حاصل کرتارہے۔
رومانویت کے اثرات میرزاادیب کی تمام اصناف میں ہی نہیں ان کی شخصیت میں بھی موجود ہیں۔ ایک دفعہ ایک ٹی وی پروگرام کی ریکارڈنگ کے سلسلے میں میرا اور فرحت نوازکا لاہور آناہوا۔ فرحت کی ایک عزیز سہیلی بھی ساتھ تھی۔ ہم میرزا ادیب کے پاس پہنچے۔ میں نے ان سے کہا ان دوبی بیوں میں ایک فرحت نواز ہے اور ایک اس کی سہیلی ہے۔بوجھیئے کونسی فرحت نواز ہے؟ میرزاادیب شش پنج میں پڑگئے۔ دونوں چہروں کو کافی غور و خوض سے دیکھنے کے بعد انہوں نے فرحت کی سہیلی کو فرحت نواز قرار دے دیا۔ شاید انہوں نے اپنے طوپریہ سوچاکہ مردادیبوں کی طرح شاعرات بھی بہت زیادہ خوبصورت نہیں ہوسکتیں۔ لیکن جب انہیں پتہ چلاکہ ان کا اندازہ غلط ثابت ہواہے تو بہت خوش ہوئے اوراسی خوشی میں دیر تک فرحت کے سرپردستِ شفقت پھیرتے رہے۔ تب مجھے شدت سے یہ خواہش ہونے لگی کہ کاش میں بھی میرزاادیب کا ہم عمر ہوتا!۔۔ پھر میرزاادیب اٹھے اوراپنی تازہ کتاب ’’مٹی کادیا‘‘ لے آئے۔ اس پر فرحت کانام لکھااور مجھے کہا۔اوئے حیدر قریشی! اس وقت یہ ایک نسخہ ہے اس لئے یہ فرحت کودے رہاہوں، یہ پہلی بار میرے ہاں آئی ہے۔ تمہارا کیاہے تم آتے ہی رہتے ہو، بعد میں لے لینا۔۔ ڈاکٹر انورسدید نے بعد میں ’’غالب کے نئے خطوط‘‘ میں مورخہ ۸۲۔۱۔۷ کے خط میں اس واقعہ کا دلچسپ انداز میں ذکرکیاتھا۔
۔۔۔۔میرزاادیب سادہ دل اور سادہ مزاج کے انسان ہیں۔ اپنے اوپر کوئی دوسرا روپ نہیں چڑھاتے۔ میں نے کئی ایسے ادیبوں کو دیکھاہے جن کی اتنی ادبی حیثیت نہیں ہوتی جتنی وہ اپنی اداکاری سے ظاہرکرتے ہیں۔ اگر ایسے ادیبوں نے اداکاری کی بجائے ادب پر اتنی توجہ کی ہوتی توشاید اپنی موجودہ بہروپیاحالت سے بہتر ہوتے۔ میرزاادیب کی سادگی اور صاف گوئی کی انتہایہ ہے کہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ اس بات کے کرنے سے میری کم علمی توظاہر نہیں ہوگی۔ صحرانورد کے خطوط کے حوالے سے بات چلی۔ رحیم یارخاں کے چولستان تک پہنچی۔ میرزاادیب نے چولستان کے سحرانگیز واقعات سنے تو بے حد حیران ہوئے پھرمعصومیت کے ساتھ کہنے لگے کبھی موقعہ ملاتو میں آؤں گا مجھے چولستان کی سیر ضرور کرانا۔ حالانکہ اگر میرزاادیب چاہتے تو اپنی حیرت کو اس خیال سے ہی چھپالیتے کہ یہ نوجوان ادیب کیا سوچیں گے، ’’صحرانورد کے خطوط‘‘ لکھ ڈالے مگر صحراکی شکل تک نہیں دیکھی۔ سادگی اور معصومیت کے یہ انداز اب ادیبوں میں کہاں ملتے ہیں۔ اب تو ہر شحص تیز تلوارہے اور موقعہ کی تاک میں۔
۔۔۔۔میرزا ادیب نے ادب کی بڑی خدمت کی ہے ۔ ادب والوں نے اس کا صلہ صرف اتنادیاکہ ان کی بعض کتابوں پر مختلف انعامات دے دیئے۔ لیکن میرزاادیب کی ادبی خدمات کاابھی تک صحیح طورپر اعتراف نہیں کیاگیا۔ اب وقت آگیاہے کہ ادباء کرام اور ادبی ادارے اس طرف توجہ کریں۔ میرزاادیب کی ادبی خدمات نصف صدی کاقصہ نہیں ہیں اس سے بھی زیادہ مدت کا قصہ ہیں۔ ہماری مجموعی عمر پچاس سال سے کوسوں دور ہے جبکہ میرزاادیب اپنی ادبی زندگی کے پچپن سال بھی کبھی کے پورے کرچکے ہیں۔ کیاہمارے ادبی اداروں کو کم از کم اتنی توفیق بھی نہیں ہے کہ میرزا ادیب کی ’’ادبی گولڈن جوبلی‘‘ مناڈالیں؟
۔۔۔۔اگر ’’نوبل پرائز‘‘ عالمی سیاست کی بھینٹ نہ چڑھ گیاہوتااورنوبل صاحب خود بھی زندہ ہوتے تو میں خود نوبل صاحب کو خط لکھتا، میرزاادیب کی کل کتابیں انہیں بھجواتا۔ مجھے یقین ہے انہیں نوبل پرائز ضرور دے دیاجاتا۔۔ ویسے میرزا ادیب اتنے شریف، محبتی، سادہ اور نوبل انسان ہیں کہ ان کا وجود خود اُردو ادب کے لئے نوبل پرائز کادرجہ رکھتاہے۔
***

Keine Kommentare:

Kommentar veröffentlichen