Mittwoch, 13. Juli 2011

اُجلے دل والا

اُجلے دل والا
چھوٹا بھائی

لڑائی جھگڑا تو حیدر ؔ نہ تھا مزاج ان کا
وہ گھونٹ زہر کے بس پی کے رہ گئے ہوں گے

۔۔۔۔وہ پڑھائی میں تھوڑا کمزور تھا۔ رہی سہی کسر کلاس ٹیچر نے پوری کردی۔ سبق نہیں سناسکاتو بچے کے مذہبی فرقے کے حوالے سے اس پر تضحیک آمیز طنز کردیا۔ گھریلوتنگ دستی کے باعث کبھی فیس بروقت ادانہیں ہوسکی یا کوئی کاپی نہیں خریدی جاسکی تو اس کی سزا یہی ہوتی کہ اسے اس کے فرقے کے نام پر گالی دے دی جاتی۔ ایسے سفّاک اور نفرت انگیز تعلیمی ماحول میں اس بچے نے کلاس ٹیچر کی کلاسز مس کرنا شروع کردیں پھر سکول سے بھی غائب رہنے لگا۔ ایک طرف اسے کلاس میں کلاس ٹیچر کے اذیت ناک جملوں کاخوف تھا تو دوسری طرف اس بات کاڈرکہ اگر اباجی کو سکول سے غائب ہونے کاعلم ہوگیاتو مرمت ہوجائے گی۔ چنانچہ اس نے اپنے کھیلنے کے چند ٹھکانے بنالئے جہاں وہ دوسرے لڑکوں کے ساتھ گولیاں اور اخروٹ کھیلتا۔ اسکول میں چھٹی کا وقت ہوتا تو گھرآجاتا۔تاہم سکول سے مستقل طورپر غیر حاضر نہیں رہاتاکہ نام خارج نہ ہونے پائے۔ ایسی صورتحال میں اس نے پتہ نہیں کیسے آٹھویں جماعت کاامتحان پاس کرلیا۔ آٹھویں پاس کرتے ہی اس نے والدین سے صاف صاف کہہ دیاکہ وہ ایسے تعلیمی ماحول میں مزید علم حاصل کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتا۔ شاید ایسے پڑھے لکھے معاشرے میں اسے اپنااَن پڑھ رہنازیادہ بہتر لگا۔ والدین سے صلاح مشورے کے بعد چودہ سال کے اس دبلے پتلے سانولے سے لڑکے نے اپنے شہرکوچھوڑ کرکراچی کی راہ لی۔ چھوٹی موٹی مزدوری سے کام کاآغاز کیا۔ابتدائی ایک مہینہ خالہ کے ہاں قیام کیا۔ جیسے ہی پہلی تنخواہ ملی اس نے اپنی الگ رہائش کاانتظام کرلیا۔ متعصّب معاشرے کی سفاکی کا شکارہونے والایہ چودہ سالہ لڑکامیرے ماں باپ کا منجھلابیٹااورمیرا چھوٹا بھائی طاہرہے۔
۔۔۔۔کہتے ہیں انسان کے دست و بازو اس کے بھائی ہوتے ہیں۔ ہم پانچ بھائی ہیں۔ پانچوں اپنی اپنی جگہ بے دست وپا۔۔ میں نے پندرہ برس کی عمر میں ملازمت کرلی تھی محض اس خیال سے کہ والدین کابوجھ ہلکاکرسکوں۔۔ چنانچہ ابتدائی محدود دائرے میں جتناہوسکا والدین کی خدمت کرنے کی کوشش کی۔ ایک دفعہ ایک بھائی نے (جو اُس وقت پیداہواتھا جب میں نے شوگر ملز کی نوکری شروع کی تھی) آپی سے گفتگو کے دوران میرے ذکرپر بڑے تلخ لہجے میں کہاکہ : ہم پر کسی نے کوئی احسان نہیں کیا۔ ہم نے اپنے ماں باپ کاکھایا ہے۔۔ مجھے اس بات کا پتہ چلاتو بے حد شرمندگی ہوئی۔ میں نے تو احسان جتایاہی نہیں تھابس والدین کی خدمت کرنے کی ایک تمنا تھی، قدرت نے ان کے جیتے جی اتنادیاہی نہیں کہ ڈھنگ سے ان کی خدمت کرسکتا۔ خیربات یہ ہورہی تھی کہ انسان کے دست و بازو اس کے بھائی ہوتے ہیں۔ میرے چار چھوٹے بھائی ہیں۔ ایک نے کوشش کی کہ میرے بازو کاٹ ڈالے دوسرے نے زورلگایاکہ میرے پیر باندھ دے۔ ڈھیٹ آدمی ہوں اس لیے سخت وار ہونے کے باوجود بچ نکلا ہوں۔ طاہر اور اعجاز دونوں بھائیوں کی مہربانی ہے کہ وہ اس کھیل تماشے میں غیر جانبدار رہے۔ میں ان کی غیر جانبداری کو بھی اپنی حمایت اور خود پر احسان مانتاہوں۔۔ طاہر کو اس لحاظ سے میں خود سے بڑا سمجھتاہوں کہ اس نے چودہ سال کی عمر میں ملازمت کرکے میرا کم عمری میں نوکری کرنے کا ریکارڈ توڑدیا۔
۔۔۔۔طاہر بیس سال کاہوچکاتھالیکن وہ مجھے اس وقت پانچ چھ سال کابچہ دکھائی دیا۔۔ اس عمرمیں ہمارے خانپورکے ماحول میں ریوڑیاں، چنے، ڈرکو، اور میٹھی گولیاں کھانے کی خواہش ہوتی ہے۔ طاہر کو بھی اس عمر میں یہ ساری چیزیں کھانے کی خواہش ہوتی تھی لیکن گھرکی ہولناک غربت یہ خواہش پوری نہیں ہونے دیتی تھی۔۔ اب جو میں نے بیس سالہ طاہر کو دیکھا تو اس کی قمیص کی سائڈ والی جیب میں ریوڑیاں، چنے اور ٹافیاں بھری ہوئی تھیں۔ گویا بیس سال کی عمر میں وہ اپنے اندرکے پانچ چھ سالہ بچے کی معصوم خواہشیں پوری کررہاتھا۔
۔۔۔۔طاہرلوہے کی مشینوں پرکام کرتاہے۔ ان مشینوں کی سختی اس کے ہاتھوں میں بھی منتقل ہوئی لیکن جس طرح لوہے کی سخت مشینیں بڑا نفیس قسم کا ریشم کاکپڑاتیارکردیتی ہیں اسی طرح مجھے سخت ہاتھوں والا طاہر ہمیشہ ایسا نوجوان دکھائی دیاہے جس کا دل ریشم کی طرح نرم اور ملائم ہے۔ ا س ریشم جیسے دل کا کمال تھاکہ اسے نسرین نامی ایک گوری چٹی لڑکی دکھائی دی اور اس نے طاہر کے سانولے رنگ کی تلافی کاتہیہ کرلیا۔چنانچہ وہ لڑکی کچے دھاگے سے بندھی چلی آئی اور ہماری بھابھی بن گئی۔ شادی کی تقریب کے معاملے میں اتفاق سے تھوڑی سی گڑبڑہوگئی۔ امی جی اس انتظار میں تھیں کہ بارات اپنے گھر سے لے کرچلیں گے۔ اُدھر ماموں صادق نے نیک نیتی سے خیال کیاکہ کراچی سے ہی بارات لے جاکرشادی کرلیں کچھ رابطے میں کمی تھی۔ نتیجہ یہ ہواکہ امی جی شادی میں شریک نہ ہوسکیں۔ اباجی اور میں بھاگم بھاگ پہنچے۔ شادی کے موقعہ پر ایک عزیزطنزیہ قسم کے جملے بول رہے تھے۔ شادی ہوتے ہی طاہر اپنی دلہن کو لے کر امی جی کی خدمت میں حاضرہوگیا۔ امی جی اتنے میں ہی خوش ہوگئیں۔ البتہ جب انہیں مذکورہ عزیز کے طنزیہ جملوں کا علم ہواتو کچھ رنجیدہ سی ہوگئیں۔ پھر غم کی حالت میں ہی اتناکہہ دیاکہ خدا اسے بھی اس کے بیٹے کی شادی میں شرکت کی توفیق نہ دے۔ قدرت خدا کی بعد میں اُسی عزیز کے بیٹے کی شادی پر صورتحال ایسی پیچیدہ ہوگئی کہ وہ اپنی عزت کاسوال بناکر اپنے ہی بیٹے کی شادی میں شرکت سے محروم رہے۔
۔۔۔۔امی جی کا مبارکہ سے جو تعلق تھا۔ اس کی کوئی مثال لاناتو ممکن نہیں البتہ باقی بہوؤں میں امی جی کو طاہر کی بیوی نسرین زیادہ پسند تھی۔ خصوصاً امی جی اپنی زندگی کے آخری ایام میں کراچی کاسفرکرکے واپس آئیں توطاہر اور نسرین سے بے حد خوش تھیں۔ طاہر کے تین پیارے پیارے سے بچے ہیں۔ نازیہ، دانش اور کرن۔۔ دانش کی پیدائش کے معاً بعد طاہر اور اس کے سسرال کے درمیان غلط فہمی پیداہوگئی۔ صورتحال تشویش ناک حد تک پیچیدہ تھی۔ مبارکہ نے چند دنوں کے دانش کو یوں سینے سے لگایاجیسے اسی کی کوکھ سے پیداہواہے۔ تب میں نے آپی اور اکبرکے ساتھ مل کر مداخلت کی۔ فیصلہ بھابھی نسرین پر چھوڑدیاگیاتو پیچیدہ صورتحال کے سارے پیچ خود بخود کھلتے گئے۔ سیتاجی ساری دنیاکو چھوڑ کر اپنے رام جی کے پاس آگئیں۔ تب سے اب تک دونوں کے درمیان پھر کوئی غلط فہمی پیدانہیں ہوئی بلکہ پہلی غلط فہمی نے میاں بیوی کی محبت کو مزید مستحکم کردیاہے۔۔ اس جھگڑے کو نمٹانے میں اکبر نے خاصی دانشمندی اور مہارت دکھائی۔
۔۔۔۔ اکبر کی دانشمندی کے اعتراف کے ساتھ اس کی دو اور دانشمندانہ باتیں بھی یادآگئیں۔میں باری باری سارے بھائی بہنوں کو یورپ میں آباد کرنے کا متمنی تھا۔ اکبر نے مجھے حیرت سے دیکھااور کہنے لگا بھائی جان! اپنے گھربار کی فکرکریں۔ پہلے خود آبادہوں۔ پھر وہاں سے سب کو پاکستانی کرنسی میں عیدیاں اور امداد بھیج کراپنا زیرِ احسان رکھیں۔ لاکھوں خرچ کرکے انہیں اپنے برابر لائیں گے تو وہ آپ کے ہی گلے پکڑیں گے۔ ایک بہن کو اس کے سارے بچوں سمیت مبارکہ کے ساتھ بھیجناتھامگر وہ صبر کے ساتھ انتظاربھی نہ کرسکی۔ فروری میں جھگڑا کرکے چلی گئی جبکہ مئی کے شروع میں مباکہ کا کام بن گیا۔ تب مجھے اکبر کی دانشمندانہ بات شدت سے یادآئی۔ ایک رشتہ دار کی بیٹیوں نے محلے میں ’’تصوف کے مسائل‘‘ پیداکررکھے تھے۔ ہم نے نیکی کے جذبہ کے تحت لڑکیوں کی ماں کو حالات سے احسن طورپرباخبرکرنے کی کوشش کی۔ وہ رشتہ دار بی بی الٹا لڑنے مرنے پر تل گئی۔ تب اکبر نے بتایاکہ مجھے ان لڑکیوں کے حالات کاعلم ہے۔ان کے خاندان کی فلاں فلاں بی بیوں کے احوال بھی معلوم ہیں۔ مگر سمجھانے کی ضرورت نہیں، سب کچھ کھلی آنکھوں سے دیکھتے بھی رہئے اور انجان بھی بنے رہیے۔ اسی میں کامیابی کاراز مضمر ہے۔ اکبرکی یہ بات بھی ٹھیک تھی۔ اس وقت ہماری ان رشتہ داروں سے علیک سلیک بھی نہیں ہے جبکہ اکبر کے گہرے مراسم ہیں۔
۔۔۔۔اکبرکی دانشمندی جملہ معترضہ کے طورپربیچ میں آن ٹپکی ، بات ہورہی تھی طاہر کی۔ سماجی حالات کی بے رحمی نے طاہر کو اچھی تعلیم حاصل نہیں کرنے دی لیکن اپنے بچوں کے تعلیمی معاملات کی طاہر خود نگرانی کرتاہے۔ اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلاکرگویا وہ خود تعلیم حاصل کررہاہے۔ اپنی زندگی میں طاہر سیدھا سادہ اور دیہاتی مزاج کا جوان ہے۔ کراچی شہر کی روشنیاں اس کی آنکھوں میں چکاچوند پیداکرنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں۔ زندگی کو اس نے بِتایانہیں بلکہ بھوگاہے۔ کئی بار ایسے وقت آئے کہ اسے فاقے کرنے پڑے، کبھی مسجد میں تو کبھی کسی دوکان کے تھڑے پر رات بسرکرناپڑی۔ اس نے سارے دکھ خاموشی سے جھیلے۔ محنت مشقت کرکے حالات کا مقابلہ کیا۔ آج وہ کراچی جیسے شہر میں اپنے چھوٹے سے خاندان کے ساتھ عزت کی روٹی کھارہاہے۔عام طوپر تلخ حالات کا مقابلہ کرتے کرتے انسان کے لہجے میں کڑواہٹ آجاتی ہے۔ مزاج میں چڑچڑاپن پیداہوجاتاہے۔ طاہر کاکمال ہے کہ اس نے تلخ ترین حالات سے گزرکر بھی اپنے باطن کی مٹھاس قائم رکھی ہے اور اپنے لہجے میں مزید نرماہٹ پیداکرلی ہے۔
۔۔۔۔اپنے باپ کے بیٹے اور ماں جائے اس اجلے دل والے چھوٹے بھائی کو میں محبت کے ساتھ سیلوٹ کرتاہوں
!
***

Keine Kommentare:

Kommentar veröffentlichen