Mittwoch, 13. Juli 2011

ایک ادُھوراخاکہ

ایک ادُھوراخاکہ
غلام جیلانی اصغر

مجھے ہر گنہ کی جزا ملی
وہ شرافتوں کی سزا میں ہے

۔۔۔۔پروفیسر غلام جیلانی اصغر سے میری پہلی ملاقات اس زمانے میں ہوئی جب وہ بھرپور جوانی گزارکے لڑکپن کی حدودمیں داخل ہوچکے تھے۔ان سے ملاقات کے پہلے مرحلے میں ہی ’’ہونہار برواکے چکنے چکنے پات‘‘ والی بات مجھے پہلی بار صحیح طورپرسمجھ میں آئی۔ یہ حقیقت ہے کہ جیلانی صاحب جوانی کے بعد مزید جوان ہوئے، بڑھاپے کو ان کے دل پر قبضہ کرنے کی جرأت نہیں ہوئی۔ہم دونوں میں سب سے اہم قدر مشترک یہ تھی کہ ہم ذہنی طورپر ہمیشہ ٹین ایج میں رہے اور انشاء اللہ تادم مرگ ایسے ہی رہیں گے۔ذہنی عمرکی ہم آہنگی کے باعث ہم ان باتوں میں ہمیشہ ایک دوسرے کے راز داررہے جو ایسی عمروں کا خاصہ ہوتی ہیں۔ مثلاً جیلانی صاحب کو انٹرکی ایک طالبہ سے محبت ہوگئی بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگاکہ اس طالبہ کو جیلانی صاحب سے محبت ہوگئی (دراصل لڑکی بچپن سے باپ کی شفقت سے محروم تھی)۔۔ ان دنوں میں جیلانی صاحب نے نہایت خشوع و خضوع سے نمازیں پڑھنا شروع کردیں، گویا:
اس کو پانے کی تمنا یہ یقیں کب ہے مگر
ہاتھ جب اٹھ ہی گئے ہیں تو دعا ہی مانگوں
سوجیلانی صاحب دعائیں مانگتے رہے اور مجھے بھی اس محبت کے احوال سے آگاہ کرتے رہے۔۔ میں ان دنوں میں جو بھی دعاکرتاتھا، رد ہوجاتی تھی اس لئے میں زورشور سے ان کی کامیابی کے لئے دعائیں کرنے لگا۔ نتیجہ میری توقعات کے عین مطابق نکلا۔۔ اسی محبت کے دوران جب لڑکی انٹر کاامتحان دے رہی تھی ایک دلچسپ واقعہ ہوا۔جیلانی صاحب کو امتحانات کے د وران چیکنگ کے خصوصی اختیارات حاصل تھے انہوں نے وزیرآغا سے کارمانگی تاکہ امتحان گاہ کادورہ کرآئیں۔ آغا صاحب نے یہ شرط عائد کردی کہ حیدرقریشی کو ساتھ لے جائیں بے شک سارادن کاراپنے پاس رکھیں۔ جیلانی صاحب نے کہا حیدرقریشی کو ساتھ لے جانے سے بہتر ہے میں خود ہی نہ جاؤں۔ مجھے اپنے بھید بتانے کے بعد انہیں اب یہ احساس ہونے لگاتھا:
ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا
بن گیا رقیب آخر تھا جو رازداں اپنا
۔۔۔۔غلام جیلانی اصغر کی محبت کے ساتھ مجھے جوش ملیح آبادی اور قدرت اللہ شہاب دونوں یاد آتے ہیں۔ جوش نے اپنی محبتوں کے اشتہار خود آویزاں کئے تھے بلکہ ان میں ڈھیر ساری رنگ آمیزی بھی کی تھی جبکہ غلام جیلانی اصغر نے اپنی محبتوں کو کبھی مشتہرنہیں کیا۔قریبی دوستوں ے بے اختیاری میں کچھ باتیں کہہ گئے تو یہ محبت کااپنا زور ہوتاہے مگر دوستوں سے بھی سارے رنگ چھپائے رکھے صرف بلیک اینڈ وائٹ ہی ظاہر کئے۔ قدرت اللہ شہاب چندراوتی کے عشق میں مسجد تک چلے گئے۔ گناہ کی توفیق مانگنے کے لئے لفظوں کے بہانے ڈھونڈتے رہے اور پھر وہاں سے بھاگ نکلے۔۔ غلام جیلانی اصغر نے خدا سے ہیرا پھیری کی کوشش نہیں کی۔ بڑے صاف، سلیس اور سادہ لفظوں میں بے تکلفی سے خداسے کچھ یوں دعامانگی:
مولا!مجھ میں گناہ کرنے کی صلاحیت ختم ہوچکی ہے۔ مجھے یہ
صلاحیت عطاکر، پھر گناہ کرنے کی توفیق دے اور اس کے بعد
میرے گناہ کو معاف بھی کردے۔بے شک توغفورالرحیم ہے!
۔۔۔۔ادبی لحاظ سے جیلانی صاحب ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں۔شاعر، انشائیہ نگار، مزاح نگار۔۔ ان تمام اصناف میں جیلانی صاحب کی شخصیت کاایک وصف بہت نمایاں ہے اور وہ ہے ان کے مزاج کی شگفتگی اورتازگی۔۔ ان کے انشائیوں میں شگفتگی کاعنصر قدرے زیادہ ہوتاہے اس لئے انشائیہ کے مخالفین نے ان کے انشائیوں کو حوالہ بناناچاہا لیکن جیلانی صاحب نے الگ سے طنزیہ مزاحیہ مضامین لکھ کر طنزومزاح اور انشائیہ کے بنیادی فرق کو خود ہی واضح کردیا۔
۔۔۔۔جیلانی صاحب کا شعری مجموعہ ’’میں اور میں‘‘ شائع ہواتو ہاتھوں ہاتھ بک گیا۔اس مجموعے کی فروخت کے سلسلے میں بعض لطیفے بھی مشہور ہوئے جن میں سب سے عمدہ لطیفہ مشفق خواجہ نے گھڑاتھا۔ اس لطیفے کے مطابق جیلانی صاحب نے اپنے پرانے شاگردوں کواپنا شعری مجموعہ حکماً فروخت کیا۔ اس لطیفے میں مزید اضافہ یہ ہواکہ جب کتاب کی ایک ہی جلد باقی رہ گئی،وہ ہمیشہ جیلانی صاحب کی بغل میں رہتی۔ جہاں کوئی پرانا شاگردنظر آتااس سے پوچھتے تم نے میرا شعری مجموعہ دیکھاہے۔جواب نفی میں ملتاتوکتاب اس کے ہاتھ میں تھماتے اورکہتے چلونکالوایک سو روپیہ۔۔ جب رقم وصول کرلیتے تو پھر کہتے میا ں تم تو شاعری سے کوئی رغبت ہی نہیں رکھتے پھر یہ کتاب تمہارے کس کام کی۔ لاؤ کتاب مجھے واپس کردو۔۔ بقول کسے جیلانی صاحب نے ۹۹۹ کتابوں سے اتنی رقم نہیں کمائی جتنی اپنے مجموعہ کی آخری جلد سے کمالی۔۔ خیر یہ لطیفہ تو لطیفے کی حدتک تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ جیلانی صاحب اپنی ادبی کتابوں کی اشاعت کے معاملے سے ہی لاتعلق ہیں۔ ا سکے برعکس وہ ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتابوں کی اشاعت میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں کیونکہ اس میں انہیں مناسب معاوضہ اور خاطر خواہ رائلٹی مل جاتی ہے۔ دراصل غلام جیلانی اصغر اپنے دوبزرگوں کی دو مختلف نصیحتوں کے درمیان پھنسے ہوئے ہیں۔ماں نے تاکید کی تھی کہ لفظ خون کی صداقت کے سچے امین ہونے چاہئیں۔ باپ نے سمجھایاتھاکہ اگر لفظ لکھوگے تو بھوکے مروگے۔ سوجیلانی صاحب نے اپنی ادبی تخلیقات کی صورت میں ماں کی نصیحت پرعمل جاری رکھااور ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتابوں کی صورت میں باپ کی تنبیہ کو مدِ نظررکھا۔یوں ماں باپ کے الگ الگ اور متضادفکر کے تھپیڑوں میں پرورش پانے والا ننھا جیلانی آج بھی کشمکش میں مبتلاہے اورماں باپ دونوں کو راضی رکھنے کی کوشش میں لگاہوا ہے۔
۔۔۔۔جیلانی صاحب میں جوذہانت، حاضر جوابی اور شگفتگی پائی جاتی ہے وہ عصر حاضر کے اردو کے چند ادیبوں کوہی نصیب ہوئی ہے۔ ان کے طنز میں زہریلاپن اور مزاح میں پھکڑپن نہیں ہوتا۔ کئی بار خود کو ہی اپنے جملوں کی زدپر رکھ لیتے ہیں۔ ایک دفعہ وزیرآغا کے ہاں قدرے تاخیر سے پہنچے۔ آتے ہی معذرت کرنے لگے کہ خضاب لگارکھاتھا اس لئے دیر ہوگئی۔ پھر خود ہی کہنے لگے یارداڑھی سیاہ ہونے نہ ہونے سے کیافرق پڑتاہے۔ بس بندے کا دل سیاہ ہوناچاہئے۔
۔۔۔۔جب جیلانی صاحب تلہ گنگ کالج کے پرنسپل بن کر گئے وہاں اسلامیات کے ایک پروفیسر کوان کی آمد گراں گزری کیونکہ وہ خود پرنسپل بننے کے خواہاں تھے۔ جیلانی صاحب کی خوبصورت اور چھوٹی سی داڑھی کے باعث پروفیسر صاحب مذکورنے طلبہ میں یہ بات پھیلادی کہ جیلانی صاحب قادیانی ہیں۔ طلبہ کی کھسر پھسر جیلانی صاحب تک پہنچی تو انہوں نے دو لڑکوں کوروک لیااورپوچھاکہ کیا مسئلہ ہے؟ لڑکوں نے ہچکچاتے ہوئے کہا:
سر!سناہے آپ قادیانی ہیں؟
جیلانی صاحب نے شگفتگی کے ساتھ جواب دیا:’’ میں قادیانی نہیں ہوں۔ سکھ ہوں بس ذرا داڑھی چھوٹی کرالی ہے‘‘۔ دونوں طالب علم یہ سن کر ہنسنے لگے اور اسی لمحے جیلانی صاحب کے اندرکابارعب پرنسپل باہرآگیا ’’تمہیں یہ بات کس نے کہی ہے؟‘‘
لڑکوں کی ہنسی کو بریک لگ گئی اور بوکھلاہٹ میں انہوں نے پروفیسر موصوف کا نام بتادیا۔ چنانچہ دوسرے دن پھر وہ پروفیسر کالج میں نہیں آسکے۔ ان کے ٹرانسفر آرڈرسرگودھاسے منگواکرراتوں رات ان کے گھر پہنچادیئے گئے۔
۔۔۔۔ایک دفعہ میں وطن عزیز کی تشویشناک صورتحال کاذکر کرکے دکھ کا اظہار کررہاتھا۔ اسی دوران میں نے جیلانی صاحب سے پوچھاجیلانی صاحب اس ملک کاکیابنے گا؟۔۔ جیلانی صاحب بولے یہ سوال صرف تمہارے جیسے بے روزگار یا میرے جیسے ریٹائرڈ لوگ ہی کرسکتے ہیں وگرنہ ہرشخص یہاں جائز ناجائز ہرطریقے سے جائیداد بنانے میں لگاہواہے اور اس کارخیر میں اتنامنہمک ہے کہ اسے یہ سوال سننے کی بھی فرصت نہیں ہے۔۔ من حیث القوم ہم جس حرص و ہوس میں مبتلاہیں جیلانی صاحب کی بات میں اس کی واضح نشاندہی موجود ہے لیکن کسی کو اس پر غور کرنے کی فرصت بھی ہو۔ اب تو مجھے بھی مزید غور کرنے کی فرصت نہیں ہے۔
۔۔۔۔میں نے جیلانی صاحب کو کبھی افسردہ اور غمگین نہیں دیکھا۔ محفلیں ادبی ہوں یا نجی۔۔ جیلانی صاحب روح رواں کادرجہ رکھتے ہیں۔ ان سے مل کر، ان کی باتیں سن کر زندہ رہنے کاحوصلہ ملتاہے۔۔ ان کاجواں سال بیٹا اپنی شادی کے دسویں دن فوت ہوگیاہم لوگ سکتے میں آگئے مگر جیلانی صاحب کسی گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے تھے۔ میں نے تنہائی میں ان کے دکھ کو کریدنا چاہامگر ان پر کچھ اثر نہ ہوااپنے اندر کے دکھ کے طوفان کو اندر ہی سمیٹے ہوئے وہ کسی شانت سمندر کی طرح لگ رہے تھے۔ میں نے زخموں کو چھیڑاتو صرف اتناکہا: مجھے بیٹے کی موت سے زیادہ اپنی بیوہ بہو کادکھ ہے۔میرا بیٹا خدا کی امانت تھا،اس نے لے لیا مگر اس بے چاری کوخدانے کیوں سزادی ہے۔ میرے بیٹے کو خداشادی کے دس دن بعد بلانے کی بجائے شادی سے پہلے ہی بلالیتا۔ اس لڑکی کو توروگ نہ لگتا۔
۔۔۔۔بات پرانی اور پامال سہی مگر پھر بھی حقیقت ہے کہ عموماً محفلوں میں زیادہ ہنسنے ہنسانے والے لوگ اندر سے بہت دکھی ہوتے ہیں۔ اپنے دکھوں کو چھپانے کی کوشش میں وہ لوگوں میں مسرّتیں بانٹتے چلے جاتے ہیں۔ جیلانی صاحب بھی ایسے ہی دکھی مگر زندہ دل انسان ہیں۔ علم و فضل کے لحاظ سے ان کا اپنا ایک مقام ہے۔ ماہر تعلیم کی حیثیت سے ان کا فرمایاہوا مستند ہے۔ ان کے ادبی مرتبے کو مخالفین بھی احترام کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ ان کے متعدد شاگرد ملک کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں اور ان کا بے حد احترام کرتے ہیں۔ اگر لاہور کے بعض ادیبوں کی طرح غلام جیلانی اصغر اپنے وسائل کو بروئے کارلائیں، اپنی پبلک ریلیشننگ سے فائدہ اٹھائیں تو ملک کا سینٹیر بننا ان کے لئے کوئی مسئلہ نہیں اور کچھ بھی نہیں تو اکادمی ادبیات کی چیئرمین شپ توگویا گھر کی بات ہے مگر افسوس کہ وزیرآغا کی طرح غلام جیلانی اصغر بھی بڑے ہی بے نیاز قسم کے انسان ہیں۔ مزید افسوس یہ کہ دونوں صاحبان نے اپنے مزاج کے اثرات مجھ پر بھی مرتب کئے اور یوں مجھے بھی بے نیازی کی دولت بخش کردنیا وآخرت میں خوار کرایاہے۔
۔۔۔۔جیلانی صاحب کے بارے میں جو کچھ میں نے لکھاہے دراصل لکھنے کی کوشش کرناہے۔ یہ ایک ادھورا سا خاکہ ہے۔ بہت ہی ادھورا سا۔۔ مجھے خود احساس ہے کہ جیلانی صاحب کی شخصیت کے ساتھ پورا انصاف نہیں کرسکا۔ جیلانی صاحب قلم کی گرفت میں آئیں تو ان کی شخصیت منعکس ہوسکے۔ وہ تو بس ہوا کے جھونکے کی طرح ہیں۔ اپنے ہونے کا، اپنی موجودگی کا، اپنی خنکی کااحساس تودلاتے ہیں مگر ہاتھوں میں ہاتھ نہیں دیتے۔
شاید میں کبھی اس ادھورے خاکے کو پوراکرسکوں
!
***

Keine Kommentare:

Kommentar veröffentlichen